• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لندن کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے افریقہ میں فوج نے ستر ہزار سے زیادہ جنگجو پسندوں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کے550سے زیادہ بچوں اور بچیوں کو جو بارہ سال سے کم عمر کے ہیں کو مختلف مقامات سے اغوا کرکے ہیڈ کوارٹر کے قریب آرمی کی نگرانی میں بنائے گئے ایک کیمپ میں جمع رکھا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ اس کیمپ سے250 کے قریب کم سن بچے اور بچیاں غائب ہیں مقامی فوج کا موقف یہ ہے کہ یہ بچےکیمپ سے بھاگ گئے ہیں جبکہ عینی شاہدوں کے مطابق 9فوجی گاڑیوں میں ان بچوں کو شہر کی طرف جاتے دیکھا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس کیمپ کے اندر آپریشن تھیٹر ہیں جہاں ان معصوم بچوں کے آپریشن کرکے مختلف اعضا نکال کر امریکہ یورپ اور عرب ملکوں کو فروخت کئے جارہے ہیں‘‘۔ اگر مندرجہ بالا خبردرست ہے تو یہ ایک وحشت ناک صورت حال ہے۔ معصوم اور پھول جیسے پیارے بچوں کا اغوا ان کا مول تول ، معصوموں کوذبح کرکے، چپرپھاڑ کرکے ان کے اعضا کوفروخت کرنا ایک ظالمانہ اقدام ہے گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اگر دنیا میں انسانی اعضا کی خریدوفروخت کا یہ سلسلہ جاری رہاتو خود انسانوں کی تجارت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ آج دنیا کے مالدار ممالک اپنے اور اپنے پیاروں کے ناقص جسمانی اعضا کے بدلے غریب ، مفلس نادار لیکن صحت مند انسانوں کے اعضا کی پیوندکاری کیلئے بے دریغ دولت لٹانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ صحت مند گردے آنکھیں اور دیگر انسانی اعضا کا حصول کیسے کیاجاتا ہے۔ انسانی اعضا کی سپلائی کا سستا ترین ذریعہ تیسری دنیا کے غریب اور مفلوک لحال لوگوں کے علاوہ غریب دنیا کے وہ معصوم اور کمسن بچے ہیں جنہیں یہ شیطان گروہ اغوا کرکے ان کے اعضا فروخت کردیتے ہیں۔ یورپ میں انسانی اعضا کی مانگ کے سبب یہ گھنائونا کاروبار روزافزوں ترقی کرکے ایک صنعت بن چکا ہے۔ یورپی ادارہ یوروٹرانسپلانٹیشن‘‘ سالانہ تین ہزار اعضا کی پیوند کاری کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یورپ میں انسانی اعضا کے تقسیم کنندگان (Distributors)بھی سرگرم عمل ہیں۔ مغربی اور سرمایہ دار ممالک کے حکمراںطبقے جوکبھی افریقہ کو آدم خور ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے آج پوری دنیا ان کی ماڈرن آدم خوری کا مشاہدہ کررہی ہے اقدار کے انحطاط کا یہ ایک بھیانک اور جدید ترین ہتھیار اور مکروہ حربہ ہے ۔غربت ،افلاس کے ہاتھوں شکار تیسری دنیا کے ممالک میں صحت مند اعضا کی فروخت کا کاروبار انتہائی عروج پر ہے جہاں مڈل مین کے ذریعے دنیا بھر کےدولت مند خطیر رقم ادا کرکے یہ اعضا ڈیلروں سے خرید لیتے ہیں جبکہ فروخت کنندہ کواسکی ادائیگی بہت کم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ عمر بھر کیلئے معذور ہوجاتا ہے یا بسا اوقات زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ایشیا میں برصغیر انسانی اعضا کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی ’’ سپلائزر‘‘ میں شامل ہیں۔ کلکتہ، ممبئی،کراچی اورلاہور میں اعضا کے ڈیلرز آنکھوں کے عوض5ہزار ڈالرز سے آٹھ ہزار ڈالرز تک وصول کرتے ہیں جبکہ گردوں کی قیمت تین سے پانچ ہزار ڈالرز ہے۔ صرف بمبئی میں کم ازکم300ڈیلرز اس دھندے میں ملوث ہیں۔ پاکستان سمیت ایشیا کے دوسرے ملکوں میں مریضوں کے علم میں لائے بغیر گردے نکالنے کا عام رحجان ہے۔ کسی بیماری کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے مریض جب ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں تووہ انہیں حیلے بہانوں سے آپریشن کیلئے آمادہ کرلیتے ہیں اور آپریشن کے دوران ہی ڈاکٹر اپنا ہاتھ دکھا جاتے ہیں اور یوں مریض اسپتال چھوڑتے وقت اپنا ایک گردہ بھی وہیں چھوڑ آتا ہے۔ ڈیلرز کے ان ڈاکٹروں کیساتھ خصوصی روابط ہوتے ہیں جس سے دونوں کو مالی فائدہ پہنچتا ہے۔ برطانوی جریدے ’’ نیوز انٹرنیشنل‘‘ کے مطابق صرف بمبئی میں سالانہ 10ملین ڈالرز مالیت کے گردوں کے سودے ہوتے ہیں جنہیں فوری طور پر مغربی ملکوں کو برآمد کردیا جاتا ہے اور یوں مغربی ملکوں کے افراد اپنے ناکارہ گردوں کی جگہ نئے اور صحتمند گردے پاکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ’’ گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بڑھا دی‘‘۔
بعض علاقوں میں ڈیلرز اپنے شکار کو لندن، پیرس، فرینکفرٹ اور لاس اینجلس تک بھجواتے ہیں فرینکفرٹ میں مقیم اس دھندے میں ملوث ایک مڈل مین نے پچھلے دنوں اعلان کیاتھا کہ500مارک کی ادائیگی کے علاوہ آپ سفر خرچ ہوٹل کے بل اسپتال اور سرجری کے اخراجات ادا کرسکیں تومیں گردوں کی تجارت کیلئے ایک گردہ فراہم کرسکتا ہوں۔ بھارت میں صرف انسانی اعضا ہی نہیں بلکہ بلکہ پورے ڈھانچے بھی500ڈالرز میں فروخت کئے جاتے ہیں جن کے زیادہ تر خریدار یورپ اور امریکہ کی میڈیکل ایجنسیاں طب کے پیشے سے متعلق افراد، کالج اور اشتہاری فلمیں بنانے والی کمپنیاں ہوتی ہیں ۔مشرقی یورپ اور روس میں سرمایہ دارانہ نظام لاگو ہونے کے بعد انسانی اعضا کی تجارت زوروں پر ہے روسی ماہرین کا ایک منظم گروہ کینیڈا، امریکہ ، فرانس اورسوئٹزرلینڈ کوانسانی اعضا برآمدکرتا ہے ماسکو میں مغربی ملکوں کے ماہرین نے ایک پوسٹ مارٹم سینٹر قائم کررکھا ہے جسکا نام ٹرانسپلانٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے یہ سینٹر50ہزار سے سترہزار ڈالرز کے معاوضے پر صحت مند گردے کی پیوند کاری کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی اعضا برآمد بھی کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ہرسال ہزاروں آپریشن کئے جاتے ہیں اور ہر پیوند کاری کے آپریشن پر کم از کم دس ہزار ڈالرز کا منافع ہوتا ہے جو ڈیلرز اور ڈاکٹر حضرات ہضم کرجاتے ہیں جبکہ غریب فروخت کنندہ کو برائےنام رقم ہاتھ آتی ہے یا اپنی لاعلمی کی وجہ سے خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ اور یوں نہ صرف امریکہ اور یورپ کے مالدار اور صاحب ثروت افراد خود اپنے اور اپنے پیاروںکے جسمانی نقائص اور ناکارہ اعضا دور کرتے ہیں بلکہ تیسری دنیا کے ’’ پیارے‘‘ اور ان کے ’’ پیاروں کے دل، گردے آنکھیں اور دوسرے اعضا خرید کران پر احسان بھی جتاتے ہیں۔ اور بقول شاعر؎
دل لیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے لیتا
میں بھلا ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں



.
تازہ ترین