• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چار سالوں میں بار بار ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے مقدمے میں ـ ’اہم پیش رفت‘ کا اعلان ہوتا رہا۔ سچ یہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے حال ہی میں ایک اہم ملزم کو برطانیہ بلوانے میں عدم دلچسپی کا اظہار کر دیا ہے۔ گویا یہ سوال اب کسی جواب کا محتاج نہیں کہ دنیا کے قابل اعتماد تحقیقاتی اداروں کے سامنے ہماری کیا وقعت ہے! اُدھر شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانتوں کی اُوپر تلے منظوری نے قوم کو حیران کر رکھا ہے؟ شاید لوگوں کا خیال تھا کہ عوام کا مال لوٹنے اور ٹارگٹ کلرز کی پشت پناہی کے الزامات میں انہیں سخت سزائیں سنائی جانے والی ہیں! قوم کو شاید یہ بھی یاد ہو کہ بہت سوں کے خلاف را کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ لیکن عرصہ دراز سے ایسے کسی مقدمے میں کسی پیش رفت سے متعلق کوئی بڑی خبر سامنے نہیں آئی۔
اِن دنوں قومی اسمبلی کے کچھ ارکان حسین حقانی کے متنازع مضمون پر ایک مجوزہ کمیشن کے لئے ٹرمز آف ریفرنس تیار کر رہے ہیں۔ چند روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اس مضمون پر تحقیقات کے لئے ایک پارلیمانی کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ تجویز متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اب ایک موشن کے ذریعے کمیشن کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ کمیشن کتنا بااختیار ہو گا اور تحقیقات میں شفافیت کی سطح کیا ہو گی!
انصاف کے عمل میں اختیارات اور شفافیت کا فقدان ملک میں روز اوّل سے قانون کے ساتھ نت نئے کھلواڑ کا سبب بنا ہوا ہے۔ کبھی ہر طرف ملک کے خلاف سازشیں ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور کبھی گروہ کے گروہ بغاوت میں ملوث ہوتے ہیں۔ کہیں ملک دشمن عناصر دندناتے پھرتے ہیں اور کہیں بہت سارے باغی اچانک گرفتار ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ سال بہتیرے بھارتی ’ایجنٹ‘ حراست میں لئے گئے لیکن دور دور تک کوئی ایسا نہ ملا جس نے اب تک کمرہ عدالت میں ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش ہوتے دیکھا ہو! مستقل سیاسی مداخلت اِس عمل میں مزید بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔ لہٰذا یہ امکان بدستور موجود ہے کہ مضمون پر مجوزہ تحقیقات میں سیاسی ترجیحات کا عمل دخل قوم کو ایک بار پھر صحیح وقت پر حقائق جاننے کے فطری حق سے محروم کر دے۔
مضمون میں درج کچھ باتو ں کو حکومت اور فوج کی جانب سے ’ اعترافات‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تحریر اُس الزام کا براہ راست ردعمل ہے جن کی بنیاد پر سابق سفیر کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ الزام یہ ہے کہ حسین حقانی نے اسامہ کی ہلاکت کے بعد اس خدشے کے تحت کہ فوج اقتدار پر قابض ہو سکتی ہے، منصور اعجاز نامی ایک امریکی تاجر کے ذریعے ایڈمرل مائیک مُلن تک رسائی کی کوشش کی تھی۔
مضمون میں روس کے خلاف امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے الزامات اور صدر ٹرمپ کے خاص رفقا سے روسی سفیر کے رابطوں کا حوالہ دے کر سابق سفیر نے اپنی متنازع سرگرمیوں کو سفارتی معمول ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مضمون میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، آصف علی زرداری اور حساس سیکورٹی اداروں کے خلاف بظاہر ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ سفارت کاری کے ذریعے دشمنوں کو دوست اور دوستوں کو اتحادی بنایا جا سکتا ہے۔ البتہ وہ یہ مان گئے کہ انہوں نے پاکستانی حکومت سے امریکی اسپیشل آپریشنز کے اہلکاروں کی تعیناتی اور ان کے لئے ویزوں کے اجرا کی منظوری حاصل کی تھی۔
اگر ان تمام کارروائیوں کے پیچھے حسین حقانی کا ہاتھ ہے، تو بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ قانونی طور پر وہ کہاں کہاں قابل گرفت ہیں؟ جہاں تک فوج کو اعتماد میں لینے کی بات ہے، تو یہ کام کسی صورت سابق سفیر کا نہیں بلکہ اسلام آباد میں بیٹھے اُن منتخب نمائندوں کا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں اس واقع کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اس صورتحال میں یہ سابق سفیر اور حکومت کسی جرم کے مرتکب ہونے سے زیادہ ایک المناک بے بسی اور شرمندہ کر دینے والی بے خبری کا نشانہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگریہ مجوزہ کمیشن سابق سفیر کے خلاف کوئی مقدمہ دائر کرنے کی سفارشات پیش کرتا ہے تو ضرور کرے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اِنہیں یہ سزا غداری یا ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر نہیں بلکہ ان کی بے خبری، بے بسی اور ان کے غیر سفارتی رویے پر ملنا چاہئے۔ رہی امریکیوں کو ویزے جاری کرنے کی بات تو اس سلسلے میں آصف علی زرداری واضح کر چکے ہیں کہ حسین حقانی بذاتِ خود ویزے جاری نہیں کرتے تھے۔ اگر غیر معمولی تعداد میں ویزوں کا اِجرا اس خاص صورتحال میں جرم تصور بھی کر لیا جائے تو اصل ذمہ داری پھر بھی حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ حسین حقانی زیادہ سے زیادہ شریک جرم ثابت ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ کہ مذکورہ مضمون میں درج تفصیلات ملک اور خود سابق سفیر کے لئے کتنی سنگین ہیں، اِس کا جواب اب کمیشن کی رپورٹ کی صورت ہی میں سامنے آئے گا۔ فی الحال فکر یہ ہے کہ کہیں اس کمیشن کی رپورٹ ’ایبٹ آباد کمیشن‘ کی رپورٹ کی طرح خفیہ درازوں ہی میں نہ پڑی رہ جائے۔
سابق سفیر کے مضمون میں شامل متنازع تفصیلات سے قطع نظر، اِس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی مرتب کردہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں واقعتاً موجود تھا۔ مزید یہ کہ حسین حقانی کو سزا ہو جانے کی صورت میں بھی کیا اِس حقیقت پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس دن دیہاڑے پوری قوم اور متعلقہ اداروں کو مُنہ چڑاتا ہوا اِس سر زمین سے بحفاظت اپنے وطن کے لئے روانہ ہو گیا! اگر حسین حقانی کے جاری کردہ ویزے حاصل کرنے والوں میں ریمنڈ ڈیوس بھی شامل تھا، تو وہ یقیناً اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کا ایک اہم حصہ رہا ہو گا۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے والے حکام کے پاس سابق سفیر کے خلاف کسی کارروائی کا کیا جواز پیدا ہو سکے گا! لیکن فی الحال ریمنڈ ڈیوس تو بہت دور کی بات ہے، حسین حقانی بھی اِن کی دسترس سے باہر ہیں۔
اِس سارے معاملے سے جڑا اگر کوئی شخص اِس وقت حکام کے قابو میں ہے تو وہ صرف شکیل آفریدی ہے۔ تاثر ملتا ہے جیسے حسین حقانی کی ملک میں عدم موجودگی اور ریمنڈ ڈیوس کی یہاں مستقل عدم دستیابی کا ردعمل، صرف شکیل آفریدی پر اتارا جا رہا ہے۔ ان پر اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں امریکیوں کی معاونت کا الزام ہے۔ اگرچہ انہیں 33سال قید کی سزا سنادی گئی ہے لیکن پتا یہ چلا کہ یہ سزا انہیں ایک مقامی جنگجو کا ساتھ دینے پر ملی تھی۔ شکیل آفریدی نہ امریکی ہیں کہ انہیں قانونِ قصاص کے تحت آزاد کرا لیا جائے اور نہ ہی وہ کوئی سفارت کار ہیں کہ جب چاہیں وطن واپسی کا ارادہ ترک کر دیں۔ شاید انہیں یہ سزا اکیلے ہی کاٹنا ہوگی لیکن یہ اندازہ نہیں کہ کس مقدمے میں!




.
تازہ ترین