• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں علاج معالجے کی سہولتیں ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہیں خاص طور پر ملک کے 61 فیصد آبادی والے دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ عطائی حکیموں خود غرض عاملوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہیں وفاقی وزیر مملکت مریم اورنگزیب کے مطابق ہیلتھ کیئر پروگرام جو ابتدائی طور پر چند اضلاع میں شروع کیا گیا تھا اب اس کا دائرہ پاکستان بھر میں بڑھا دیا گیا ہے تا کہ غریب عوام تک سستے علاج کی رسائی کو یقینی بنایا جاسکے یہ ایشیا میں صحت کا سب سے بڑا پروگرام ہو گااس حکومتی اقدام کے باوجود دیہی ہی نہیں شہری علاقوں میں بھی علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے کاغذات میں شاید ڈسپنسریاں قریہ قریہ بستی بستی قائم ہو چکی ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ دیہی علاقوں میں ڈسپنسریاں یا بڑے لوگوں کی بھینسوں کے باڑے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں یا پھر ان میں سرے سے تربیت یافتہ عملہ اور ادویات میسر نہیں ہوتیں دیہی علاقوں کے غریب لوگ شہروں کا مہنگا سفر نہیں کر سکتے اور عطائی حکیموں اور نان کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں مرض بگڑ جاتا ہے تو مریض شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں شدید رش کے باعث دھکے کھا کر واپس چلے جاتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ دیہی علاقوں میں جہاں اسپتال بن سکتے ہوں بنائے جائیں ڈسپنسریوں کی تعداد بڑھائی جائے اور ان میں علاج کی تمام تر سہولتیں فراہم کی جائیں محکمہ صحت کے افسر باقاعدگی سے بنیادی مراکز صحت کا دورہ کریں اور وہاں علاج معالجے کو یقینی بنائیں ہیلتھ کارڈز بنیادی طور پر غریبوں کے لئے ہیں اور دیہات سے زیادہ غریب لوگ کہیں نہیں رہتے لہٰذا اس اسکیم کا زیادہ فائدہ دیہات کو پہنچایا جائے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی حاضری کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور علاج معالجے کے ساتھ صحت و صفائی کو بھی ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنایا جائے۔

.
تازہ ترین