• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرگودھا کے نواحی علاقہ میں مبینہ طور پرگدی نشینی کے تنازع پر نام نہاد پیر کے ہاتھوں بیس افراد کا وحشیانہ قتل ایک لرزہ خیز واردات ہے۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ۔تاہم سانحہ سرگودھا نے ہمارے سماج میں پائی جانے والی ایک کریہہ حقیقت کو برہنہ طور پر ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اب کھل کر اسکے اسباب کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور سدباب پر بات ہو رہی ہے۔ پیری مریدی ہمارے سماج کا حصہ ہے۔ اب سے نہیں گزشتہ کئی سو برسوں سے۔ برصغیر پاک و ہند میں خانقاہی نظام موجود تھا۔ اولیا اللہ نے اس زمانے میں افراد کی تربیت ، سماج میں مثبت رویوں کی تشکیل اور منفی رویوں کی بیخ کنی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس سے کہیں بڑھ کر سماجی نظریات کی ترویج اور استحکام میں بھی۔آج بھی درگاہوں، آستانوں،اور مزاروں پر عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اللہ کے ولیوں، صوفیوں،اور بزرگوں کی صحبت یقینا باعث خیر و برکت ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مگر بہت سے جعلسازوں نے پیروں فقیروں کا روپ دھار رکھا ہے۔یہ جعلساز،پیری مریدی کوایک نفع بخش کاروبار کیطرح چلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں آستانے اور درگاہیں غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی آماجگاہیںہیں۔جوابدہی اور گرفت کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔لہذا دیہات اور قصبوں کے علاوہ، شہروں میں بھی پیشہ ور پیر وں،فقیر وں کے اڈے سرعام قائم ہیں۔ سادہ لوح اور ضعیف الاعتقاد افراد کو بے وقوف بنا کر مال بٹورا جاتا ہے۔ خواتین کے استحصال اور آبروریزی کے قصے بھی آئے روز سننے کو ملتے ہیں۔
عمومی طور پر تعلیم کی کمی اور غربت کو اس صورتحال کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ جزوی طور پر یہ بات درست ہے۔تاہم ضعیف الاعتقادی کا شکار صرف ان پڑھ اور غریب طبقہ نہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ (جامعات کے اساتذہ بھی) اور متمول خواتین و حضرات بھی نام نہاد پیروں سے ـ’’کسب فیض‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ معروف سیاستدان، اعلیٰ سرکاری افسران اور نامور کاروباری شخصیات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ افسوس کہ تعویذ گنڈے، جادو ٹونے اور دم جھاڑے کو مسائل اور پریشانیوں کاحل سمجھا جاتاہے۔شادی بیاہ، کاروبار کی ترقی، نوکری کے حصول ، اولاد نرینہ کی خواہش، امتحان میں کامیابی اور دیگر معاملات کیلئے لوگ ان خود ساختہ پیروں کا رخ کرتے ہیں۔ یہی نہیںبلکہ حسد اور نفرت کے جذبات سے مغلوب ، دوسروں کی تباہی ، بربادی اور نقصان کے خواہشمند بھی انہی کا در کھٹکھٹاتے ہیں۔غور کیجیے، مخلوق خدا کی بربادی اور نقصان کا اہتمام کرنے والا شخص کیونکر صوفی یا فقیر ہو سکتا ہے؟
سرگودھا کے واقعہ نے نام نہاد پیروں اور عاملین کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت، میڈیا اور علمائے کرام کاکرداربھی زیر بحث ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس واقعہ کانوٹس لیا تو متعلقہ ادارے متحرک ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ ـ گزشتہ دو برس سے قائم" دربار محمد علی" کامحکمہ اوقاف میںکوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ قتل کے اگلے روز پولیس کو اس واردات کی خبر ملی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ سے اس بے خبری کی جوابدہی ہونی چاہئے۔ بلا شبہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہر دم متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ انکی شخصیت کا یہ پہلوقابل تعریف ہے۔ تاہم اداروں کی سست روی افسوسناک ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس کے کرنے والے کام بھی وزیر اعلیٰ کے نوٹس کے محتاج ہوتے ہیں۔ گڈ گورننس فرد واحد کے بجائے اداروں کے تحرک کا نام ہے۔پوچھا جانا چاہئے کہ گزشتہ نو برس سے قائم پنجاب حکومت نے مزاروں اور آستانوں کی اصلاح احوال کیلئے کیا کاوش کی؟ کتنی غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی حامل آماجگاہیں بند کیں؟کتنے جرائم پیشہ پیروں کو انکے کرتوتوں کی سزا ملی؟ بظاہر یوں لگتا ہے کہ حکومت نے اس ضمن میں تغافل برتا۔تاخیر ہی سے سہی،اب ایسے افراد کیخلاف کارروائی کا آغاز ہوا ہے تو اسے انجام تک پہنچانا چاہئے ۔ اس وقت مقامی حکومتیں بھی قائم ہیں، جنکی رسائی گلی محلے کی سطح تک ہوتی ہے۔ ان حکومتوں کو ایسی منفی سرگرمیوں کی نشاندہی اور بیخ کنی کیلئے موثر طور پر استعمال میں لانا چاہئے۔
یہ امر قابل افسوس ہے کہ ہمارے اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں نے بھی جعلی پیروں، جادو ٹونے ، اور ضعیف الاعتقادی کیخلاف عوام کو آگہی فراہم کرنےکی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اسکے برعکس پرنٹ میڈیا تو ایسے افراد کی تشہیر کا اہتمام کرتا ہے۔ اخبارات و رسائل میں باقاعدہ اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر اگرچہ یہ اشتہارات نہیں آتے ، مگر ستاروں کی چال اور قسمت کا حال قسم کے پروگرام بذات خود ان عقائد و نظریات کا اشتہار ہوتے ہیں۔ ایسے میںمیڈیا ریگولیٹری اتھارٹیز کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پیمرا تو پھر بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ تاہم پریس کونسل آف پاکستان (جو کہ پرنٹ میڈیا سے متعلق ریگولیٹری ادارہ ہے )کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ عوام اس ادارے کے نام تک سے آشنا نہیں۔ انہیںمعلوم ہی نہیںکہ اس ادارے کا سربراہ کون ہے۔بہت کم سنتے ہیں کہ پریس کونسل نے کسی خبر یا اشتہار پر نوٹس لیا ہو۔ مصیبت مگریہ ہے کہ ریگولیٹری ادارے کوئی کاروائی کرتے بھی ہیں تو کبھی عدلیہ کی آڑ لی جاتی ہے اور کبھی خود میڈیا کی طرف سے آزادی اظہار پر قدغن کے نعرے بلند ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں یہ ادارے بھی بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔اس واقع سے سبق لیتے ہوئے جعلی پیروں، جادوگروں اور عاملوں کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کر دینی چاہئے۔اس کیلئے پریس کونسل کی فعالیت اور تحرک درکار ہے۔ بہت اچھا ہو کہ آل پاکستان نیوز پیپر زسوسائٹی ((APNS اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(CPNE) جیسی بااختیار تنظیمیں خود ایسے منفی اشتہارات کا بائیکاٹ کر نے کا تہیہ کر لیں۔
اس معاملے کی حوصلہ شکنی کیلئے منبر و محراب کا کردار نہایت اہم ہے۔۔اگرچہ تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے سانحہ سرگودھا کی مذمت کی ہے، مگر محض مذمت ناکافی ہے۔ اس حوالے سے ٹھوس عملی اقدامات پر مبنی مستقل نظام وضع ہونا چاہئے۔ مثلا ہمارے ہاں ہر گلی محلے میں مسجد موجود ہوتی ہے۔نماز جمعہ کا خاص طور پر اہتمام ہوا کرتا ہے۔لوگوں کی تربیت کی غرض سے جمعے کے خطبات میں جادو ٹونوں، نام نہاد پیروں فقیروں اور انکی تقلید کی مذمت ہونی چاہئے ۔ اسی طرح نصاب کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ہر چند سال بعد ہم نصاب کی تبدیلی اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنیکارونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تاہم عملی طور پر شاید ہی کچھ کرتے ہوں۔ ضعیف الاعتقادی کی بیخ کنی بھی اہم عصری تقاضا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ایسے معاملات کو نصاب تعلیم کا حصہ بنائیں۔ یہ وبا سماج میں اسقدر سرایت کر چکی ہے کہ اسکا خاتمہ کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ حکومت، میڈیا، علمائے کرام، اساتذہ اور عوام سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے تب ہی اس کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔




.
تازہ ترین