• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دفعہ پھر سفر درپیش ہے۔ دوستوں کا خیال ہے پاناما کا فیصلہ میرے سفر پر روانہ ہونے کے بعد ہی آسکتا ہے۔ سفر کے پہلے مرحلہ میں ٹورنٹو (کینیڈا) جانا ہے۔ جن لوگوں نے زاد سفر کا ذمہ اٹھایا ہے۔ وہ سب کتابوں کی دنیا کے باسی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میں راستے میں دبئی قیام کروں اور پھر لندن سے ہوتا ہوا ٹورنٹو جا اتروں مگر میرے ہم سفر کا خیال ہے کہ دبئی کی رونق تو پاکستان آچکی ہے۔ سندھ کی کابینہ سابق صدر آصف علی زرداری اور مستقبل کے اپوزیشن لیڈر بلاول زرداری بھٹو کی وجہ سے ویسے ہی مصروف ہے۔ دوسرے لندن میں بھی ویرانہ سا ویرانہ ہے۔ صرف الطاف بھائی چند جانثاروں کے ساتھ بانسری بجاتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان کے یہاں بھی سر مل نہیں رہا۔ آجکل وہ بھی برطانیہ کی مدد سے قاصر نظر آرہے ہیں، ان کو شک ہے کہ برطانیہ والے اندر ہی اندر کپتان سے مشورے کرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے کپتان ایم کیو ایم لندن کو نظر انداز کررہا ہے۔ پھر یہ بھی سوچا کہ امریکہ کے راستے جایا جائے تو معلوم ہوا کہ ٹرمپ زیادہ ہی مصروف ہے۔ ٹرمپ ٹاور میں ان کے ہمسائے ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری سابق سفیر حقانی کی وجہ سے کھیل کے قاعدے بدلنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ہماری یاترا بے مقصد ہوسکتی ہے ہاں حسین حقانی سے کچھ توقع کی جاسکتی ہے مگر ان کو ٹرمپ نے مصروف کر رکھا ہے۔ اوپر سے ہمارے نئے سفیر اعزاز چوہدری امریکی انتظامیہ سے اپنے معاملات طے نہیں کرسکے۔ سو فیصلہ یہی ہوا کہ ادھر سے بیٹھ کر سیدھے ٹورنٹو جا اتریں گے۔ سو فیصلہ یہ ہوا کہ قومی ایئرلائن پر سفر ہوگا اور ہوا۔ لاہور میں مہربانوں کی وجہ سے اچھا سا سلوک رہا۔ اگرچہ پی آئی اے کے عملہ کے منہ پر مسکراہٹ کا مکمل فقدان تھا۔ جہاز بھی خالی خالی سا تھا۔ فسٹ کلاس میں دس مسافر بُک تھے۔ مگر موج کرنے والے دس سے زیادہ تھے۔ عملہ سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ خاص لوگ ہیں ۔ لاہور سے جہاز آدھا گھنٹہ کی تاخیر سے روانہ ہوا اور وجہ امیرٹریفک کنٹرول کی مصروفیت بتائی گئی اور عملہ ایسا کہ ڈر آجائے بقول ہمارے کالمی اور قلمی میزبان قاسمی صاحب آجکل تو ان سے اچھی سینئر استانیاں ہوتی ہیں۔ ویسے عملہ بھی کچھ زیادہ ہی سینئر لگا۔
کپتان کے اعلان کے مطابق لاہور سے ٹورنٹو تک کی اڑان تقریباً تیرہ گھنٹے اور تیس منٹ کی تھی۔ مگر لاہور سے ٹورنٹو تک کی اڑان چودہ گھنٹے سے زیادہ کی تھی۔ جس وقت جہاز روانہ ہوا تو ظہر کی نماز کا وقت ہونے کو تھا۔ پہلے دو گھنٹے تو عملہ اپنی گپ شپ میں لگا رہا پھر اخباروں کی تقسیم کا خیال آیا۔ ایسے میں کئی لوگ ناشتے کے انتظار میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کررہے تھے۔ بچوں کی بھی معقول تعداد ہم سفر تھی لوگوں کی چہل پہل سے بالکل گھر کا سا ماحول تھا۔ سیٹوں کی حالت ایئر لائن کی طرح ناگفتہ اورجہاز کا انٹرٹینمنٹ سسٹم بھی خراب تھا عملہ کا اصرار تھا کہ بس ابھی فکس ہو جائے گا۔ بالکل ہماری سیاسی سرکار کی طرح وعدہ پر ٹرخاتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد کھانے کی سروس شروع ہوئی۔ کھانا حسب سابق دیسی پکوانوں پر مشتمل تھا۔ جو کئی دفعہ گرم ہونے کے بعد بدذائقہ ہو چکا تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے بزرگ نے جب عملہ سے شکایت کی تو عملہ کا جواب خوب تھا۔ بابا جی پہلے یہ کھانا لاہور کے پنج ستارہ بڑے ہوٹل سے آتا تھا۔ مگر اب پنجاب سرکار کے کسی مہربان کے ہوٹل سے آتا ہے۔ ہمارا کچن تو عرصہ ہوا بند ہو چکا ہے اور عملہ بھی اپنا کھانا خود ہی لاتا ہے۔ بزرگ ان کے بھاشن سے پریشان سے تھے۔ انہوں نے کھانا تو نہیں کھایا۔ بس چائے کے کپ پر گزارہ کیا اتنے میں ایک اور صاحب بھی ہماری ساتھ والی خالی نشست پر آگئے۔ ان کو بھی شکایت تھی۔ پھر باتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بزرگ تو سینئر سٹیزن تھے۔ عرصہ پچاس سال سے کینیڈا میں قیام پذیر ہیں اور خاصے مطمئن ہیں۔ مگر پاکستان کے حالات سے مایوس۔ میں نے پوچھا۔ آپ مایوس کیوں ہیں۔ کہنے لگے اب تو پاکستان میں سب کچھ ہی بدل سا گیا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے۔ میں اپنی زمینوں کے لئے آیا تھا۔ پنجاب حکومت نے زمین کی فرد اور دیگر معاملات کے لئے کمپیوٹر سینٹر بنائے ہیں۔ میں تقریباً 50 دن کے بعد واپس جارہا ہوں۔ مجھے اپنی زمین کی فرد ملکیت لینی تھی۔ پٹواری کی خدمت کی اور کمپیوٹر سینٹر میں جمع بندی مکمل کروائی مگر فرد حاصل نہ کرسکا۔ عملہ ناتجربہ کار اوران کے افسر حضرات دفتر آئے ہی نہیں۔ ہم تارکین وطن کے لئے خادم اعلیٰ کی انقلابی تبدیلیاں باعث مشکل ہیں اور ان پر کوئی چیک نہیں ہے۔
ان بزرگ کا نام اللہ بخش تھا۔ ان کا پورا خاندان اب تارکین وطن تھا۔ وہ ٹورنٹو کے نزدیک ایک آبادی مسی ساگا میں رہتے ہیں میں نے پوچھا آجکل کیا مصروفیت ہے۔ کہنے لگے میں اب بھی رضا کار کے طور پر ایک مقامی اسکول میں کام کرتا ہوں۔ کینیڈا کی سرکار مجھے پنشن دیتی ہے اور خیال بھی رکھتی ہے۔ میں اسکول کے عملہ کے سامان کا انتظام کرتا ہوں اور تقریباً روزانہ پانچ گھنٹے کام کرتا ہوں۔ میں اسکول کے کتب خانہ میں بھی دو دن کام کرتا ہوں۔ اب تو وہاں بھی خاصی اردو اور پنجابی کی کتاب دستیاب ہیں۔ میں نے پوچھا آپ کو اپنے وزیراعظم کا معلوم ہے وہ مسکرائے اور اپنا اسمارٹ فون نکالا اور مجھے اپنی تصویروں میں سے ایک تصویر دکھائی۔ یہ نوجوان ہمارا وزیراعظم ہے اور اس کی تصویر میرے ساتھ ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا آپ سے اس کا کیا تعلق۔ وہ فوراً بولے بڑا تعلق ہے میں نے اس کی پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ وہ شکریہ ادا کرنے ہماری مسجد میں آیا تھا۔ میرے کہنے پر اس نے میرے ساتھ فوٹوبنوا دی وہ عام سا انسان ہے۔ تمہارے وزیراعظم کی طرح کا نہیں وہ ایک مکمل شریف آدمی ہے۔ میں نے میاں نوازشریف کو ایک شکایت کا خط لکھا تھا۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ کینیڈا میں جمہوریت نظر آتی ہےجبکہ پاکستان میں جمہوریت کا ڈھول پیٹا جاتا ہے حقیقت یہ ہے پاکستان میں جمہوریت کرپشن کوفروغ دے رہی ہے اور عام آدمی کے لئے کوئی آسانی نہیں۔ الزام محکمہ انصاف پر لگایا جاتا ہے کہ انصاف نہیں ہوتا۔ مگر حکومت کے ادارے اپنا کردار ہی ادا نہیں کرتے۔ خود ہی ثبوتوں کو نظرانداز کر کے عدالت سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ اب امید ہے پاناما کے فیصلہ کے بعد حالات بدلنے کا موقع ملے گا۔ ان کی باتوں میں امید تو ضرور تھی۔ مگر امنگ نہیں تھی۔ ہماری گفتگو بہت دیر تک جاری رہی۔
ہمارا دوسرا مسافر جو کینیڈا کی سرحد کے نزدیک ایک امریکی شہر روچسٹر میں رہتا تھا۔ بڑے حیران کن انکشافات کررہا تھا۔ اس کی پاکستان کی معیشت اور سیاست پر گہری نظر تھی۔ اس کا خیال تھا کہ ہمارے سیاسی رہنما دوسروں کے لئے کام کررہے ہیں اس کے مطابق میاں نوازشریف کو بعض عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے اور ان کے اور پیپلز پارٹی کے پردھان آصف علی زرداری کے درمیان معاہدہ امریکہ، برطانیہ نے کروا رکھا ہےاور یہ پندرہ سال کے لئے ہے۔ اسی وجہ سے باری باری کا کھیل جاری ہے اور دونوں فریق عوام سے زیادہ اپنے مفادات کے لئے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ان دونوں فریقوں کی وجہ سے عمران خان کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور انتخابات شفاف نہ ہوسکے۔ اس کا کہنا تھا کہ معاہدہ کرنے والے عمران خان سے خائف تھے انہوں نے جو معاہدہ کروایا تھا اس کی وجہ سے انہیں بھی فائدہ ہوا۔ جنرل مشرف کو ان کے کردار کا اندازہ ہوگیا تھا مگر وہ بھی اس معاہدہ میں ایک فریق ہیں اور معاہدہ کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرنا ممکن نہیں اور اسی وجہ سے جنرل مشرف کے تمام ساتھی میاں نوازشریف کے حلیف بن چکے ہیں۔ اس قسم کی باتیں ہمارے ہاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ کا ہماری سیاست پر کتنا اثر ہے۔ اس کی ہدایت پر افغانستان کی سرحد کھول دی گئی۔ اب عمران خان کو اہمیت مل رہی ہے اور ضروری بھی ہے۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ اعلان ہوا کہ کچھ وقت کے بعد جہاز ٹورنٹو کے ایئرپورٹ پر اتر جائے گا اور بہت ساری باتوں کی گنجائش تھی۔ مگر وہ پھر کسی وقت پر۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاناما کے فیصلہ کے بعد جمہوریت پسند سرکار اپنا کونسا کردار ادا کرتی ہے۔ انتخابات اور باری باری کا معاہدہ تجدید مانگتا ہے۔ اس دفعہ اس معاہدہ میں کونسے نئے فریق شامل ہونگے۔ جمہوریت بہترین انتقام کا پہلا ایکٹ مکمل ہو چکا ہے۔ دوسرے کے لئے کرداروں کا انتخاب جاری ہے۔ انشاءجی نے خوب لکھا تھا ’’یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں‘‘۔



.
تازہ ترین