• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیام پاکستان کے وقت اگرچہ مرکزی و صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کے روزمرہ اخراجات میں بڑی حد تک کفایت کو ملحوظ رکھا جاتا تھا مگر تعلیمی اداروں کو لائق اساتذہ فراہم کرنے اور ان اداروں کی ناگزیر ضروریات پوری کرنے کی حتی المقدور کوششیں کی جاتی تھیں جس کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے ایسے نایاب گوہر برآمد ہوئے جنہوں نے قوم کیلئے قابل فخر خدمات انجام دیں۔ یہ کیفیت تاحال شہروں تک محدود رہنے کا بڑا سبب دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کا تعلیم دشمن رویہ رہا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کئی عشروں سے حکومتی پالیسیوں کا رخ سرکاری تعلیمی ادارے قائم کرنے، ان کا معیار بہتر بنانے اور سستی تعلیم کی فراہمی کے منافی نظر آ رہا ہے۔متوسط طبقے کے بچے اپنی تمام بنیادی ضرورتوں سے دستبردار ہو کر جو گراں فیسیں ادا کرتے ہیں، وہ بھی انہیں بہتر مستقبل دینے میں ناکام رہتی ہیں جبکہ وسائل پر قابض اشرافیہ کے بچے بیرون ملک تعلیم کا تمغہ گلے میں سجا کر مناصب و مراعات کے مستحق گردانے جاتے ہیں۔ اس منظر نامے میں ایسی صورتحال کو مجرمانہ غفلت کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ دستور پاکستان کے تقاضوں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے برعکس 5سے 16سال تک عمر کے بچوں کی بڑی تعداد اسکولوں سے باہر ہے، دیہی علاقوں میں آج بھی اسکولوں کی عمارتوں کو وڈیروں کی اوطاقوںکی حیثیت حاصل ہے اور سفارش یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ایسے اساتذہ کا تقرر کر دیا جاتا ہے جن کی مصروفیات میں تعلیم و تدریس سرے سے شامل ہی نہیں ۔وزارت تعلیم کے ادارے اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اور اقوام متحدہ کے ’’ورلڈ فوڈ پروگرام‘‘ کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق 5سے 9سال عمر کے 32 فیصد بچے اسکول ہی نہیں جاتے جبکہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ بقیہ68فیصد میں سے بھی بڑی تعداد مختلف مراحل پر تعلیم سے باہر آتی رہتی ہے۔ رپورٹ کی تفصیلات ایسی مایوس کن صورتحال کی تصویر کشی کر رہی ہیں جس کا ہر پہلو اصلاح طلب ہے۔ہمارے مالیاتی اور انتظامی ڈھانچے کی دنیا معترف ہے اس میں اتنی گنجائش ضرور ہونی چاہئے کہ ہمارے بچوں کو مفت ابتدائی تعلیم اور کم خرچ اعلیٰ تعلیم کے علاوہ فرض شناس اساتذہ دے سکے۔

.
تازہ ترین