• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمالیہ نے آنسو بہائے تھے کہ نہیں، پھانسی پہ چڑھائے جانے کے 38 برس بعد بھی اُن کے لئے آج بھی لاکھوں آنکھیں اشکبار ہیں۔ بھلے رجعتی لوگ اُن کا نام کیسے ہی مٹایا کریں۔ اور اُن کے مردِ مومن جنرل ضیاء الحق کی فاتحہ پڑھنے والا شاید ہی کہیں کوئی ملے۔ جن ججوں نے اُن کا ’’عدالتی قتل‘‘ کیا، اُن کا فیصلہ آج بھی ہماری عدالتی تاریخ کے چہرے پہ بدنما داغ ہے جو مٹائے نہیں مٹتا! مگر تاریخ کے فیصلے کے آگے یہ سب ہیچ ہے کہ بھٹو امر ہو چکے۔ کیا زمانہ تھا! پچاس برس پہلے (1967) میں اُنہوں نے فوجی آمریت کو لات مار کے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بنیاد ڈالی ہی تھی کہ 1968ء میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی تحریک نے جنم لیا۔ بھٹو جو پہلے ہی عوام کی نظروں میں آ چکے تھے، وہ مغربی پاکستان میں اس عوامی اُبھار کے بڑے رہنما بن کر رونما ہوئے۔ زمین پر پٹخے گئے تو عوام نے کندھوں پہ اُٹھا لیا۔ مجہول سیاست کی بساط اُلٹ گئی اور عوامی تحریکوں سے اُبھرے ہوئے انقلابی اور اصلاحی لوگ عوامی خوابوں کی تعبیر کے لئے میدان میں کود پڑے۔ کیسے کیسے لوگ تھے جو آسمانِ سیاست پر ستاروں کی طرح چمکے۔ ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید، معراج محمد خان، حفیظ پیرزادہ، محمود علی قصوری، مختار رانا، حیات محمد شیر پاؤ اور ایسے سینکڑوں رہنما جو ذاتی اغراض سے بلند ہو کر پاکستان کو عوامی جمہوریہ بنانے کے عزم کے ساتھ بھٹو کے ہمسفر ہوئے۔ یہ زمانہ ہی دُنیا میں انقلابی تحریکوں کا تھا۔ ویت نام میں امریکی سامراج شکست سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں سماجی آزادی کی تحریکیں عروج پر تھیں، نوجوان ہاتھوں میں انقلابی کتابیں تھامے پرانے نظام ہائے استحصال اور جبر و محکومی کو ڈھانے دُنیا بھر میں سڑکوں پر تھے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا۔ طالب علم باہر نکلے تو مزدور اور کسان بھی ہتھوڑا اور درانتی اُٹھائے میدان میں کود پڑے۔ 10 سالہ ایوبی آمریت کے خلاف کیا جمہوری اور انقلابی مطالبہ تھا کہ سامنے نہ آیا: بالغ رائے دہی، جمہوری و انسانی حقوق، عورتوں کی آزادی، صوبائی خودمختاری، ثقافتی و شناختی خودارادیت، مزدوروں، کسانوں کے معاشی حقوق، جاگیرداری اور گماشتہ سرمایہ داری کا انہدام اور سوشلزم کے نوع بنوع نجات آفریں منشور۔ یہ زمانہ تھاہوچی منہ، ماؤزے تنگ، کاسترو، پیٹرس لممبا، نیلسن منڈیلا، سوئیکارنو، امیلکار کیبرال، ایلاندے، یاسر عرفات اور جدید عوامی تاریخ کے معماروں کا۔ اور بھٹو بھی اُنھی کے جلو میں جاوداں نظر آتے ہیں۔ اس عالمی انقلابی اُبھار میں کیسے کیسے شاعر، ادیب، موسیقار، فلم ساز اور انقلابی فکر لے کر سامنے آئے کہ تاریخ ان پر فخر کیے بنا نہیں رہ سکتی۔ ہمارے ہاں بھی اُن کی کمی نہ تھی، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، اُستاد دامن، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، اجمل خٹک اور دوسرے اَن گنت لکھاری اور مصنّفین جنہوں نے ظلم و استحصال، آمریت و ملائیت، جہالت و دقیانوسیت اور افلاس و پسماندگی سے پاک سماج اور عوام کی حکمرانی کے گیت گائے۔
بھٹو میں جہاں بے شمار حیران کُن خوبیاں تھیں، تو بہت کمیاں بھی تھیں۔ لیکن اُن کے حاصلات اور کارنامے اور خوبیاں اُن کی کمزوریوں اور کجرویوں پہ کہیں بھاری ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اُن سے بڑا سیاستدان ابھی تک پیدا نہیں ہوا اور اُن کے ہم عصر بھی کیا کیا زبردست لوگ تھے۔ مولانا بھاشانی، مجیب الرحمان، خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، مفتی محمود، غلام غوث ہزاروی، مولانا مودودی، افضل بنگش، سی آر اسلم، میجر اسحاق، رسول بخش پلیجو اور بہت سے دوسرے۔ 1970ء کے انتخابات نے تو جیسے تاریخ کو سر کے بل کھڑا کر دیا۔ پرانی سیاست کے برج اُلٹ گئے، لیکن آمریت اور رجعت کی قوتیں عوام کے مینڈیٹ کو ماننے سے انکاری ہوئیں تو خون کی ندیاں بہہ گئیں اور جنرل یحییٰ خان کی فوجی آمریت کو ایسی شکست ہوئی کہ مشرقی پاکستان آزاد بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان ایک جمہوریہ کے طور پر سامنے آیا۔ جو لوگ بھٹو کو آج بھی پاکستان کے دو لخت ہونے کے ذمہ دار قرار دیتے ہیں، یہ وہی ہیں جو جنرل یحییٰ خان کے خونی ٹولے کے ساتھ تھے اور مشرقی پاکستان پر فوج کشی کے حمایتی۔ مجیب الرحمان اور بھٹو کے مابین کئی طرح کے آئینی منصوبے زیرِ غور تھے۔ اگر فوج کشی نہ کی جاتی اور ملک کے دونوں حصوں کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کیا جاتا تو کوئی جمہوری راستہ نکل سکتا تھا، بھلے ایک نیم وفاق کی صورت یا پُرامن اور دوستانہ علیحدگی!! لیکن فوجی حل پر اصرار کیا گیا۔ بھٹو پر یہ اعتراض تو کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس فوج کشی کے خلاف سینہ سپر نہ ہوئے، حالانکہ مغربی پاکستان میں طالب علموں، سیاسی کارکنوں اور مزدور لیڈروں پر کوڑے پڑ رہے تھے اور جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا۔ جب بھٹو صاحب کو ٹوٹے پھوٹے اور شکست خوردہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے لایا گیا تو اُنہوں نے کمال مستعدی سے پاکستان کو پھر سے کھڑا کر دیا۔ 90 ہزار فوجی و سول قیدیوں کی بھارتی قید سے باعزت واپسی ہوئی اور شملہ معاہدہ ہوا (جس میں کشمیر کے دو طرفہ مسئلے کو تسلیم کیا گیا)۔ قومی اتفاقِ رائے سے 1973ء کا آئین دیا، جمہوریت و وفاقیت کی داغ بیل ڈالی۔ زرعی اصلاحات کیں، مزدور دوست پالیسی دی، سول و انتظامی اصلاحات کیں، پبلک سیکٹر میں لاتعداد منصوبے بنائے، پورٹس، اسٹیل ملز، ہیوی مکینکل کمپلیکس، واہ آرڈینینس فیکٹری، پانی کے بڑے منصوبے، شاہرات، یونیورسٹیاں، کارخانے، آرٹ کونسلیں اور جانے کیا کچھ ہے جو اُنہوں نے نہیں کیا۔ تیسری دُنیا کو متحد کیا، آرگنائزیشن آف اسلامی کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ نیوکلیئر طاقت حاصل کی اور فوجی سلامتی کا نظریہ دیا۔ جو بعد ازاں پاکستان کے لئے عوامی سلامتی کے بجائے فوجی سلامتی کا نظریہ بن گیا۔ بھٹو کی سب سے بڑی خامی اُن کی آمرانہ روش تھی اور دائیں بازو کی مذہبی قوتوں سے سمجھوتہ کرنے کے باوجود مُلّا، ملٹری اور بازار کی سازش سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اور یہ سب کچھ وہ اپنی گیارہ سالہ سیاسی زندگی میں کر کرا کر تختۂ دار پہ جھول گئے۔ جس شان سے وہ مقتل کو گئے، وہ شان آزادی کے بعد کم ہی نظر آئی۔ ہزاروں لاکھوں بھٹو اپنے بھٹو کو بچانے نکلے اور برس ہا برس قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے خوشبوئے گل کی طرح خود اپنے پیغام پر فدا ہو گئے۔
جنرل ضیاء کا دورِ وحشت ایسا خوفناک تھا کہ بڑے بڑے جغادری بھاگ گئے اور قومی اتحاد کے نو ستارے جنرل ضیاء کے سیاسی حرم میں شامل ہو کر خوار ہوئے۔ جب جمہوریت کی بحالی کی تحریک شروع ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو سامنے آئیں اور پھر بے نظیر بھٹو نے قیادت سنبھالی۔ موروثی سیاست کا الزام لگانا آسان ہے، لیکن جو بھٹو خاندان نے آئین کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی کے لئے کیا، کوئی اُن جیسی مثال تو پیش کرے۔ بے نظیر بھٹو سمیت تمام بھٹو خاندان جمہوری و عوامی مزاحمت میں کام آیا۔ حقِ سیاسی وراثت کسی نے ادا کیا تو وہ صرف بے نظیر تھیں۔ لیکن اب زمانہ بدل چکا تھا، سوشلسٹ بلاک سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ تحلیل ہوا اور سرد جنگ کے خاتمے پر ایک سپرپاور کا استعماری نظام دُنیا پہ مسلط ہوا۔ بے نظیر بھٹو نے بھٹو کے نظریہ کو نئے حالات میں ڈھالا اور اس کے آمرانہ پہلوؤں کو ترک کرتے ہوئے ایک جمہوری، انسانیت دوست، امن پسند اور سماجی آزاد خیالی کے نظریہ کو اپنایا۔ نظریہ کی یہ سیاسی جدوجہد زیادہ صبر آزما اور لمبی تھی اور اُنہوں نے دو آمریتوں کو شکست دی۔ اُن کی دونوں حکومتوں کو ضیاء کی آمرانہ باقیات اور آمریت پسند قوتوں نے چلنے نہ دیا۔ پیپلز پارٹی جو اپنا پرانا نظریہ کھو چکی تھی، اُسے بے نظیر نے ایک روشن خیال اور عوام دوست نظریہ دیا اور اُنہوں نے مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف نظریاتی و فکری محاذ بنا کر پی پی کو ایک نئی نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ برطانیہ کی نئی لیبر کی طرح اُنہوں نے ایک اصلاحی سوشل ڈیموکریسی کے لئے راہ ہموار کی۔ اور انتہاپسندی کے خلاف ایک ترقی پسند پاکستان کا پرچم بلند کرتے ہوئے وہ مذہبی انتہاپسندوں، دہشت گردوں اور آمرانہ قوتوں کے گٹھ جوڑ کے خلاف نبرد آزما ہوئیں اور میدانِ کارزار میں شہادت سے ہمکنار ہو گئیں۔
کیا رزمیہ ہے بھٹوز کا جو اب بھی عوام کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ لیکن بھٹوز کی سیاسی روایت (Legacy) اب ماند پڑ رہی ہے۔ اقتدار پر ہر حالت میں آنے اور ہر قیمت پر رہنے کی روش نے پیپلز پارٹی کو اُس کی عوامی حمایت سے محروم کر دیا ہے۔ آصف علی زرداری (جو ایک نہایت کایاں سیاست دان ثابت ہوئے) نے طاقت اور امرا کے ڈھانچے کو اپنی سیاست کا محور بنایا۔ وہ جمہوری عبور کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں تو کامیاب رہے اور اُنہوں نے صدارتی محل سے اختیارات پارلیمنٹ اور صوبوں کو منتقل تو کیے لیکن پیپلز پارٹی کی عوامی اساس کو مسمار کر بیٹھے۔ اب جبکہ سماجی و طبقاتی تفریق اور امیر غریب کا فرق پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے اور امیر اپنی الگ شاندار بستیاں بسا کر زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تو پیپلز پارٹی فقط سندھ کے وزیروں کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ جمہوری، انسانی آزادیوں، خواتین و اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز تو بلند کرتی ہے، لیکن عوام کی معاشی و سماجی تمناؤں سے منہ موڑ چکی ہے۔ ایسے میں نوجوان بلاول بھٹو زرداری کرے تو کیا کرے۔ والدہ اور نانا کی عوامی سیاست اور سوشل ڈیموکریسی کی راہ اپنائے یا اپنے والد محترم کی محض اقتدار کی سیاست کا خوبصورت اور بے بس مہرہ بن جائے۔ کاش! آصف زرداری پیچھے ہٹتے اور بیٹے کو آگے آنے دیتے۔ وہ اگر بلاول کو آگے آنے دیں اور اسے اپنی راہ اختیار کرنے دیں جیسے بے نظیر نے کی تو دیکھیں پھر وہ خلاکیسے پُر ہوتا ہے جو خود پیپلز پارٹی نے پیدا کیا ہے۔ ایک بار پی پی پی اپنے حلقۂ انتخاب کو عوامی سیاست سے بحال کر لے اور اپنی ٹوٹی ہوئی عوامی جڑیں بحال کر لے تو پھر شطرنج کا کھیل بھی کھیلا جا سکتا ہے اور زرداری صاحب سے اچھا سیاسی شطرنج کا کھلاڑی کون ہوگا۔ دیکھئے پی پی پی تحلیل کی طرف جاتی ہے یا پھر عوامی بحالی کی طرف، لیکن اس کی گردن پر سوار سندھ میں بُری حکمرانی کا طوق کون اُتارے گا؟ ایک دوست نے خوب موازنہ کیا کہ بے نظیر بھٹو کو ایک عظیم باپ کی شہادت کا ورثہ ملا اور بلاول کو عوامی سیاست کی راکھ پر تعمیر کردہ محل۔ کیا وہ عوام سے لاتعلقی کے محلوں سے نکلنے کی جرأت کریں گے؟ پیپلز پارٹی کا مستقبل غیریقینی سہی، لیکن بھٹو امر رہیں گے!



.
تازہ ترین