• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ میں کس کام میں پڑ گیا ہوں۔ میرا موڈآج سنجیدگی کا بالکل نہیں لیکن ایک سروے نے مجھے عارضی طور پر سنجیدگی میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ سروے لمز یونیورسٹی اور ایک انٹرنیشنل ادارےنے ساتھ مل کر کیا جس کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ عمران خان نہیںبلکہ نوازشریف اور شہباز شریف میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ پاکستان کی برادری میںشامل کرسکیں۔ میں اس سے پہلے کہ آگے بڑھوں مجھے ایک ٹویٹ جو مجھے ابھی ابھی موصول ہوا ہے ،آپ سے شیئر کرنا ہے۔ ٹویٹ ہے۔
’’جب تک چند لٹیرے اپنے وطن کو گھیرے ہیں
بجلی بند رہے گی، پانی بند رہے گا!!
لو جی میں کس طرف چل پڑا۔ بس میرے اور مبشر علی زیدی کے مشترکہ دوست ڈوڈو اسی طرح مجھےڈسٹریکٹ کرتے رہتے ہیں۔
ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا سروے کا۔ یہ سروے جو پاکستان کی شہرت یافتہ یونیورسٹی لمز اور ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن نے مل کر کیا ہے، اس میں لاہور کے تین حلقوں این اے 121، 122اور 124میں ان حلقوں کے لوگوں کے سیاسی رویوں کا ذکر کیاگیا ہے۔ اس کے مطابق عوام کو بیروزگاری اور قوت ِ خرید میں کمی پر تشویش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کا رونا بھی روتے ہیں۔ اپنے مالی حالات میں بہتری کے حوالے سے بھی شاید وہ بہت زیادہ خوش فہم نہیں ہیں۔ اس حوالے سے بعض میں صرف ایک محتاط قسم کی امید پائی جاتی ہے لیکن وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے نواز شریف اور شہباز شریف پر بھروسہ کرتے ہیں کہ اُن میں اِن مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہے۔ یہ ووٹرز نوازشریف اورشہباز شریف کی دیانت پر یکسو ہیں کیونکہ ان حلقوں کی ایک بڑی تعداد کا یہ خیال ہے کہ یہ دونوں پاکستان کو ترقی کی راہ پر کھڑا کرسکتے ہیں۔
میں آگے لکھنا چاہ رہا ہوں۔ یہ ڈوڈو مجھے لیکن ٹویٹ کرکرکے تنگ کر رہا ہے۔ اب کہتا ہے کہ شہباز شریف کاپولیس کےلئے اصلاحات کرنے کے بجائے ان کی وردیاں تبدیل کردینا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو مریض کی بستر کی چادر تبدیل کرنے کاکہا جائے اوروہ اس کی دھوتی بدل دے۔
ہم ڈوڈو کو بھول کر سروے کی بات کرتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ ضروری ہے۔ جس سروے کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس کے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ان میں پی ٹی آئی کی حمایت ن لیگ سے کم ہے۔ ان حلقوں کے لوگوں نے بجلی کو ملک کا اہم مسئلہ قرار نہیں دیا۔ (معلوم نہیں آج کی اس خبر کے بعد کہ پاکستان میں دن میں 16گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہوسکتی ہے، لوگ اب کیاکہیں گے؟) لوگوں کےخیال میں بجلی کی قیمتیں شاید زیادہ مسئلہ ثابت ہوں گی۔ یہاں یہ بات بھی سامنے آئی ہےکہ نواز لیگ نے اپنے 2013کے منشور میں بجلی کی بہتر فراہمی کا ذکر کیا ہے لہٰذا اگر 2018کے الیکشن تک وہ اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو ان کے لئے 2018کے الیکشن میں ایک بڑا جھٹکا ہوسکتا ہے۔
لیجئے اب ایک اور ٹویٹ..... ڈوڈو نے اس بار احمد جاوید صاحب کےایک قول کا ذکر کیا ہے۔ احمد جاوید صاحب کہتے ہیں۔
’’یہ دنیا مکمل طور پر کھلی منڈی بن چکی ہے۔ ایک طرف خریدار ہیں اوردوسری طرف دکاندار۔ ہمارا مفاد اس میں ہے کہ دکاندار بلاک میں شامل ہو جائیں۔ ہمارے پاس بیچنے کو بہت کچھ ہے۔ مثلاً حمیت، غیرت، قوم وغیرہ..... ان معمولی اور بے مصرف چیزوں کی بھی بڑی قیمت مل رہی ہے۔ اس کاٹھ کباڑ سے فارغ ہو کر ہم اپنی آزدی کا سوداکریںگے۔ اس کے بعد غلامی کے دام بھی کھرے کریںگے۔‘‘
بس بھائیو! اس سے آگے مجھ سے نہیں ہوتا۔ بھاڑ میں جائے ڈوڈو اور اس کے ٹویٹ۔ تو سروے میں..... ار ےڈوڈو یار کچھ آگے بڑھنے دو۔ لیکن دھیان میرا اس کے بھیجے ہوئے ٹویٹ اور پیغامات کی طرف جارہا ہے۔ اب لکھتا ہے کہ ’’ PSLختم ہو گیا اب تو نواز شریف بتا دیں کہ لندن فلیٹس کے پیسے کہاں سے آئے تھے‘‘..... اور پھرآگے ایک لمبی کہانی بھی لکھی ہے۔ آپ بھی پڑھیں۔
’’پچھلے دنوں ایک تقریر میں نوازشریف صاحب نے اپنی رفیع سے ملتی جلتی آواز کا ذکر کیا تھا۔ اس حوالے سے میں نے یہ کہانی سنی ہے 1961میں مشہور فلم ’’مایا‘‘ کے ایک شہرہ آفاق گانے ؎
’’تصویر تری دل میں جس دن سے اتاری ہے‘‘
کی ریکارڈنگ کے دوران محمد رفیع مرحوم اور لتا منگیشکر کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ لتا کا خیال تھا کہ ان کے گائے ہوئے ہٹ گانوں کی ڈھائی پرسنٹ کے حساب سے سنگر کو رائلٹی ملنی چاہئے جبکہ رفیع صاحب کا خیال تھا کہ انہیں گانے کی پے منٹ فلم ریلیز ہونے سے پہلے پروڈیوسر کردیتے ہیں۔ اب اگر فلم ہٹ ہو یا فلاپ، گانے مشہور ہوں یا نہ ،سنگرز کو پیسے مل جاتے ہیںاوریہ پروڈیوسر کا ایک طرح سے جوا ہوتا ہے اس لئے سنگرز کو رائلٹی کی ڈیمانڈ نہیں کرنی چاہئے اور یہ پروڈیوسر کی محنت اور قسمت ہے کہ اگر اسے فلم ہٹ ہونے کی صورت میں زیادہ کمائی ہو یا فلاپ ہونے کی صورت میں مالی نقصان۔
لتا کو رفیع صاحب کی یہ بات پسند نہیں آئی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ان کے مطالبے میں رفیع صاحب شامل ہو جائیں تو سب سنگرز کی کمائی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ رفیع صاحب کے انکارکے بعد لتا نے رفیع صاحب کے ساتھ گانا ریکارڈ کرانے سے انکار کردیا اور یہیں سے وہ ٹوئسٹ شروع ہوا جس کا راز اس دن نوازشریف صاحب کی تقریر میںکھلا۔
یہ گانا سپرہٹ ہو گیا اور اس کی پوری دنیا میں کروڑوں کیسٹس فروخت ہوئیں۔ 1970تک اس گانے کی رائلٹی کئی ارب ڈالرز ہوگئی۔ یہ نوجوان کون تھا جس نے رفیع صاحب کی جگہ یہ گانا گایا اور اس کی اتنی کمائی ہوئی۔ میاںصاحب نے خطاب میں بتا ہی دیا کہ ان کی آواز رفیع سے ملتی تھی سو یہ گانا انہی سے گوایا گیا اور بھی کئی گانے جن کے بارے میں خیال یہ تھاکہ رفیع نے گائے ہیں دراصل میاں صاحب کے گلے سے نکلے ہوئے ہیں۔
1970 میں رائلٹی میں جمع ہوئے اربوں ڈالرزاور پھر بعد میںکئی اور گانوں کی کمائی حکمرانوں نے کہیںتو انویسٹ کرنا تھی نا۔ حضور! یہ تھے وہ ذرائع اوروسائل جس کے بارے میں پی ٹی آئی والےخواہ مخواہ گلی گلی میں شور ہے..... چور ہے کے نعرے لگا رہے ہیں۔‘‘
اب ایک لطیفہ بھی ہو جائے:
مردم شماری والے نے پوچھا ’’فلیٹ اپنا ہے‘‘ میں نے کہا ’’جی نہیں قطریوں کا ہے‘‘ ناراض ہو گیا۔ کہنے لگا ’’غلط بیانی کی سزا ہے‘‘ میں نے کہا ’’اس سے پہلے کسی کو ملی؟‘‘ اس نے فارم اس طرح لپیٹا جیسے فیصلہ محفوظ کیا ہو اور پھر چلا گیا۔



.
تازہ ترین