• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے کے آغاز میںایک حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے ایک جواں سال حریت پسند رہنما توصیف احمد شیخ کو ہلاک کردیا گیا۔ ’’معمول ‘‘ کے حالات میںانتہا پسندوں کو ہلاک ہی ہونا ہوتا ہے، لیکن وادی پر قبضے نے ہماری زندگیوںکو اتنا تبدیل کردیا ہے کہ ہر معمول کی سرگرمی کچھ دیر بعد متروک دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اُس کی ہلاکت نے مقبوضہ وادی کو اپنی گرفت میں لینے والی سفاکانہ مکاری کو ایکسپوز کردیا ہے۔
گیارہ سے زیادہ گھنٹوں تک جاری جس لڑائی میں توصیف احمد کی ہلاکت ہوئی ، اُس میں سینکڑوں مسلح بھارتی فوجی اور نیم فوجی دستوں نے حصہ لیا ۔ اُنھوں نے، رائفل، مارٹر، گرینڈ اورراکٹوں کے ہزاروں رائونڈ فائر کئے ۔ آخر کار بھارتی فورسز کو آئی ای ڈی کا دھماکہ کرکے اُس تین منزلہ اینٹوں کی عمارت کو تباہ کرنا پڑا جس میں بائیس سالہ توصیف نے پناہ لی ہوئی تھی ۔ آئی ای ڈی بلاسٹ کے ساتھ ہی فائرنگ کا سلسلہ رک گیا اور پھر یہ یقین کرنے کیلئے کہ کوئی زندہ تو نہیں بچ گیا، بھارتی فوج نے کومنگ آپریشن شروع کردیا ۔
ایک اہم اخبار، ’’دی کشمیر ریڈر‘‘نے اس واقعے کو مقابلے کی بجائے ’’جنگ‘‘ قرار دیا کیونکہ عمارت کو اتنے طاقتور مواد سے تباہ کیا گیا تھا کہ اس کی اینٹوں، شیشے اور لوہے کے ٹکروں نے قریبی مکانات کو بھی اُڑا کر رکھ دیا۔ جب ملبے کے ڈھیر سے ہلاک شدہ لاش برآمد ہوئی توفورسز کا پر غرور انداز ایسا تھا جیسے اُنھوںنے کسی عظیم فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے ہوں۔ بے پناہ فائرنگ اور مارٹرگولوں کی شیلنگ کے دوران ٹی وی اسکرین پر روایتی بھارتی صحافیوں کے تبصروں اس واقعے کی ہولناکی اجاگر کرتے ہوئے غربت زدہ بھارتی عوام کے جذبات پر اسلام اور پاکستان مخالف ہندو انتہا پسندانہ بیانیے کا رنگ مزید گہر ا کررہے تھے ۔ ٹیکنیکل نقطہ نظر سے ، اس میں البتہ ایک خامی تھی۔ ’’قوم سازی کے اس عقربی ڈرامے ‘‘کے پیچھے سیکورٹی افسران کی دانستہ چشم پوشی کارفرما تھی، اور یہ روایت 1999 ءکی کارگل مہم کی یاد دلاتی ہے جب نئے آزاد ہونے والے بھارتی میڈیا نے معمولی حقائق کی ملمع کاری کرتے ہوئے صنعتی پیمانے پر خبرسازی کا ہنر سیکھاتھا۔
کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس گن فائٹ کے بعد کئی بھارتی ٹی وی چینلزنے اُس مکان کی دھماکہ خیز مواد سے تباہی اوراس کے نتیجے میں اٹھنے والے دھوئیں اور گرد وغبار کے مناظر بار بار دکھائے جو مبینہ طور پر اس جنگ کا مرکز ِ ثقل تھا۔ مختلف زاویوں سے لئے گئے مناظر کو مکس کرکے بنائی گئی تصویری خبر کے ہمراہ ’’سائٹ ‘‘پرموجود رواں تبصرہ کرنے والوں کی جوشیلی آواز بھی ناضرین کو اس عسکری کارروائی سے باخبر رکھے ہوئے تھی۔ ’’ٹیلی وژن ٹوڈے ‘‘ کے دہلی میں بیٹھے ہوئے ایک سینئر صحافی نے دعویٰ کیا کہ عمارت کے اندر حز ب المجاہدین اور لشکر ِ طیبہ کے بہت سے جنگجوموجود ہیں ، اور وہ ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار نہیں۔ آخر کار جب گن فائٹ دھماکے دار طریقے سے ختم ہوئی توبھارتی نیوز چینلز نے دعویٰ کیا اُن کے فوجی جوانوں نے بہت دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’دہشت گرد‘‘ کو ہلاک کردیا ہے ۔
توصیف کے والد، غلام قادر کے مطابق اُس کے بیٹے نے خوف کی فضا میں آنکھ کھولی تھی، اور جب وہ 16 سال کا تھا تو اُسے بھارتی سیکورٹی اہلکار اٹھا کر لے گئے اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ کسی بھی کشمیری نوجوان کی زندگی کا ’’معمول کا حصہ‘‘ ہے ۔ اُسے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت چار سال کیلئے جیل میں بند کردیا گیا۔ اُس نے میٹرک،ایف اے اور بی اے کے امتحانات جیل میں ہی پاس کئے تھے ۔ 2015ء میں رہا ہونے کے بعد توصیف نے روزگار کیلئے بھیڑ بکریوں کا فارم قائم کیا ، لیکن سیکورٹی ایجنسیاں اُسے مسلسل پریشان کرتی رہیں۔ اُن کی مسلسل اذیت رسانی سے تنگ آکر آخر کار اُس نے گزشتہ سال وادی میں پھیلی ہوئی شورش کے دوران مزاحمت کی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی ۔
بطور ایک حریت پسند جنگجو، توصیف کی عمر صرف چھ ماہ تھی۔ اُسے زیادہ عسکری اور حربی ٹریننگ حاصل نہیں تھی ، اور اُس کا گن فائٹ میں انتہائی تربیت یافتہ فوج اور دنیا کی تیسری بڑی جنگی مشین کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق توصیف کے جسم پر چند ہفتے پہلے ہونے والی گن فائٹ میں لگنے والے زخم تھے اور وہ ایک آپریشن کے بعد صحت کی بحالی کے مراحل میں تھا۔ سب سے اہم، اور اس حقیقت کو دھماکہ اور گردوغبار اور دھوئیںکے بادل بھی نہ چھپا سکے ، کہ اُس کی لاش کے قریب سے صرف ایک پستول اور چند ایک رائونڈ ملے تھے ، اور یہ بات گن فائٹ شروع ہونے سے پہلے اس مکان سے نکلنے والی فیملی نے بھی فوج کو بتائی تھی کہ جنگجو کے پاس صرف یہی اسلحہ ہے ۔ گیارہ گھنٹوںتک جاری رہنے والی گن فائٹ، بے پناہ دوطرفہ فائرنگ، دھماکوںکی کوریج اور تبصروںنے ایک بار پھر بھارتی سیکورٹی فورسز کی منشا کے تابع میڈیا کے صحافتی دیوالیہ پن کوآشکار کردیا۔ دن بھر اس واقعے کو دیکھنے والے گواہ اور ہمسائے اس سرکاری دعوے کی تردید کرتے ہیں کہ توصیف کو ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی گئی تھی ۔ اس سے ایک بار پھر یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ سکیورٹی فورسز صرف نوجوانوں کو انتہا پسند قرار دے کر ہلاک کرتے ہوئے اپنی ترقی اور انعام کی متمنی ہوتی ہیں۔
پس نوشت:
چادورا(Chadoora) میں ہونیوالی اس جھڑپ میں تین شہری بھی ہلاک ہوئے ۔ اُن کی ہلاکت کی وجہ اُن پر کی گئی براہ ِراست فائرنگ تھی جب وہ سیکورٹی فورسز کے محاصرے کے خلاف احتجاج کررہے تھے ۔ ہلاک ہونے والے دو نوعمر لڑکے تھے ، جبکہ تیسر ے نوجوان، زاہد رشید غنی کی عمر بائیس سال تھی، اور وہ سیکنڈ ایئر کا طالب ِعلم تھا۔ اس انتہائی بربریت ، جو کہ وادی میںکوئی غیر معمولی بات نہیں، کے مظاہرے کے بعد توصیف کی لاش لے جانے والی ایمبولینس فوجی دستوں کے نرغے میں تھی۔ نوجوان کی ہلاکت پر سوگوار مظاہرین پر تشدد کیا گیا اور اُن پر آنسو گیس کے شیل فائر کئے گئے ۔پولیس کے ایک ترجمان نے یہ کہتے ہوئے اس کارروائی کا جواز پیش کیا کہ آئندہ ہونے والے مظاہروں کو روکنے کیلئے اس کی ضرورت تھی ۔
ضمیمہ:
اس خونی ہولی سے چند دن قبل، مقبوضہ کشمیر کی وزی ِا علیٰ محبوبہ مفتی نے ایک مسلمان کی نئی تعریف کی ۔ مس مفتی کے آبائی قصبے ، اسلام آباد ( ضلع اننت ناگ) میں ہونے والی ایک سرکاری تقریب کے دوران اُنھوںے دعویٰ کیا کہ اُن کے والد مفتی سعید ایک ’’حقیقی مرد ِ مومن ‘‘ تھے، اگرچہ مرحوم سال میں صرف عیدین کی نمازیں ہی اداکرتے تھے ۔ جب محترمہ نے انہیں مرد ِ مومن قرار دیا تو تقریب میں کچھ قہقہے سنائی دیئے ۔ مفتی سعید کے حوالے سے بچپن کی کچھ یادیں ذہن میں محفوظ ہیں۔ وہ ہماری مقامی عیدگاہ میں نماز ادا کرنے آیاکرتے تھے ۔ اُنھوں نے روایتی کشمیری شال اور قراقلی ٹوپی پہنی ہوتی تھی۔ نماز کے بعد وہ جب بھی خطاب کرنے کیلئے کھڑے ہوتے ، زیادہ ترلوگ احتجاج کرتے ہوئے وہاں عیدگاہ سے چلے جاتے ۔ اُنہیں نہ صرف ایک آئوٹ سائیڈر بلکہ ایک مداخلت کار بھی سمجھا جاتا۔ اس سے پتا چلتاہے کہ وہ کتنے بڑے مرد ِ مومن تھے ۔



.
تازہ ترین