• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا قیام ایک جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا اور یہ جمہور ی عمل تھا 1946 کے عام انتخابات جس میں برّصغیر ہندو پاک کے مسلمانوں نے قائدِ اعظم کی قیادت میں،انکی جماعت کو مسلم اکثریت کے علاقوں میں کامیاب کروا کر حصولِ پاکستان پر مہرِ تصدیق ثبت کردی تھی۔ یہ محض جمہوریت کی بدولت ہی ممکن ہو سکا تھا۔ کیونکہ تحریک ِ پاکستان کیلئے نہ تو جنگی ہتھیار وں سے کوئی جنگ لڑی گئی اور نہ ہی قابض حکمرانوں کے خلاف پُرتشدّد تحریک چلائی گئی جیسا کہ اُس وقت دنیا کے اکثر نو آبادیاتی ملکوں میں خونی تحریکیں ہی آزادی حاصل کرنے کا ایک واحد راستہ سمجھی جاتی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے دوران جو خون خرابہ ہوا۔ وہ اعلانِ تقسیم ِ ہند کے بعد ہوا اس کا تحریکِ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا اس کا بنیادی سبب ہجرت کرنے والوں کے مال و اسباب پر قبضہ کرنا تھا۔ جو بعد ازاں مذہبی نفرت اور انتقام در انتقام کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ جس طرح جمہوری عمل نے ہمیں پاکستان دیا تھا۔ اسی طرح جمہوری عمل سے روگردانی اور عوامی مینڈیٹ کی توہین نے ہم سے 14اگست 1947ء کو قائم ہونے والا پاکستان چھین لیا جب 1971میں ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کی جتنی مرضی تاویلیں دی جائیں لیکن اسکی بنیادی وجہ 1958کاوہ مارشل لاتھا جس نے دونوں صوبوں میں ایک دوسرے کے خلاف غلط فہمیوں کو جنم دیا اور مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں ہونے کے باوجود احساس ِ محرومی کا شکار ہوگیا۔ اور جب پاکستان میں لگنے والے جنرل یحیٰی خان کے دوسرے مارشل لاء نے انتخابی نتائج ماننے کی بجائے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف فوج کشی شروع کردی تو علیحدگی کی جو فصل جنرل ایوب خان نے بوئی تھی وہ پک کر تیار ہو گئی اورپاکستان بالآخر جنرل یحیٰی خان کے دورِ حکومت میں دولخت ہوگیا۔ جمہوریت سے روگردانی کی سزا اتنی عبرت ناک تھی کہ پاکستان اپنے قیام کے محض 23سالوں کے بعد ہی دولخت ہوگیا۔ حالانکہ اس سے زیادہ عمر تو انسانوں کے ذاتی تعلقات کی ہوتی ہے۔جبکہ ملکوں کی عمر یں تو صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔ چنانچہ’’ جمہوریت‘‘ ہماری قومی تاریخ میں نہایت اہمیّت کی حامل ہے۔ اور جمہوریت کے حوالے سے 10اپریل کو بھی ہماری قومی زندگی میں دو طرح سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ 10اپریل کی پہلی اہمیّت تو یہ ہے کہ اس تاریخ کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے 1973ء کا وہ تاریخی آئین منظور کیا جسے پاکستان کا متفقہ آئین کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ واحد دستاویز تھی جسے حکومتی پارٹی سمیت اپوزیشن کی اُن سیاسی پارٹیوں نے بھی متفقہ طور پر قبول کیا جن کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ قیامِ پاکستان کی مخالف جماعتیں تھیں۔ اس آئین کے ذریعے بچے کچھے پاکستان کے چاروں صوبوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے اور قومی دھارے میں یکساں طور پر شامل کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ کیونکہ یہ وہ آئین تھا جس نے پہلی مرتبہ وحدت ِ پاکستان کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا کی اور یوں استحکامِ پاکستان کا ضامن ٹھہرا۔ یہ آئین اس لئے بھی خصوصی اہمیّت کا حامل تھا کہ متحدہ پاکستان کے زمانے میں ہم 23سالوں تک کوئی متفقہ جمہوری آئین نہ بنا سکے۔ اور اگر 56کا آئین بنایا بھی تو اسے پوری طرح نافذالعمل کرنے کی نوبت نہ آسکی۔ جبکہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہونے والے بھارت نے آزادی کے صرف دو سال بعد ہی اپنا آئین بنا لیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہم سے سات گنا بڑا ملک ہونے اور بے شمار مذہبی، لسانی اور سماجی تضادات کے باوجود بھارت ابھی تک اپنی وحدت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ افسوس کہ 10اپریل 1973کو قومی اسمبلی سے پاس ہونے اور 14اگست 1973کو پورے ملک میں نافذ ہونے والے اس متفقہ آئین کو ایک اور فوجی غاصب جنرل ضیاء نے 5جولائی 1977کو معطل کرکے پوری قوم کو ایک مرتبہ پھر آمریت، لاقانونیت، مذہبی تشدّد اور دہشت گردی کی دلدل میں پھینک دیا جس سے یہ بدنصیب قوم ابھی تک پوری طرح باہر نہیں نکل سکی۔ ملکی وحدت کی علامت آئین ِ پاکستان کو صفحات کا پلندہ قرار دے کر کسی وقت بھی پھاڑدینے کے دعوے کرنے والے اس ڈکٹیٹر کے زمانے میں جمہوریت پسندوں پر جو گزری وہ کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھی۔ جب قید، کوڑے، جرمانے اور پھانسیاں جمہوریت پسندوں کا مقدر تھیں تو اس وقت بھی ایک 10اپریل نے جنم لیا۔ اور یہ 10اپریل 1986کا دن تھا جب جمہوریت کی علامت محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی جلاوطنی کے بعد لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا اور مینارِ پاکستان میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد کیا تھا میںبھی اس لحاظ سے اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتا ہوںکہ اس جلسے میں محترمہ نے میری نظم ’’میں باغی ہوں‘‘ پڑھی تھی جو بعد میں جمہوریت پسندوں کی شناخت بن گئی تھی۔ دوسرے 10اپریل کے بعد چلنے والی جمہوری تحریک اور جنرل ضیاء کی ہلاکت نے اگرچہ ملک میں جمہوریت تو بحال کر دی لیکن اسکے استحکام کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ 10اپریل کو یومِ جمہوریت کی حیثیت سے منا کر ہی ہم جمہوریت اور شہدائے جمہوریت کو خراجِ تحسین پیش کر سکتے ہیں کیونکہ جمہوریت میں ہی ہماری بقا ہے۔



.
تازہ ترین