• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ملک بھر میں بجلی چور ہیں، کچھ کی بجلی بند کر دی، کچھ کی لوڈشیڈنگ بڑھائیں گے اور اضافی لوڈشیڈنگ جاری رہے گی‘‘. یہ الفاظ کسی غیر کے نہیں بلکہ وزیرِ بجلی کے ہیں جو لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا عوام کو ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر مزید عذاب میں مبتلا کرنے کا اہتمام کر رہے تھے— ابھی موسم گرما کا آغاز ہوا ہے مگر شارٹ فال آسمان کو چھونے لگا ہے جبکہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے یہ دلائل دیئے جا رہے ہیں کہ گزشتہ اپریل کے مقابلے میں رواں برس درجہ حرارت زیادہ ہے اور اس مہینے 2ہزار میگا واٹ کی طلب بڑھی ہے۔ وزیر موصوف کی اس رام کہانی کے بڑے چرچے ہیں ہر ایک اپنے اپنے انداز میں تبصرے کر رہا ہے، ایک دوسرے سے سوال پوچھے جارہے ہیں کہ ن لیگ کی حکومت کے حکمرانی کے چار سال مکمل ہونے کو ہیں، وزیراعظم ملک بھر کے طوفانی دوروں میں شہر شہر پہنچ کر یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ اس سال کے آخر تک ختم ہو جائیگی جبکہ وزیر موصوف پاکستان بھر کے عوام کو بجلی چو ر بنا رہے ہیں۔ عوام کے مختلف طبقات لوڈشیڈنگ پر جس طرح اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ بھی سنیے:
جس حکومت اور وزیر بجلی کو یہ ہی معلوم نہیں کہ کس مہینے ملک بھرمیں کتنی بجلی درکار ہوگی وہ لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کیسے کر سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جنوری، فروری اور مارچ کے مہینے میں ڈیموں میں پانی کی کمی ہوتی ہے پھر اس کا انتظام کیوں نہیں کیا۔ اُن کا یہ کہنا کہ گردشی قرضے 31مارچ تک 385ارب تھے اس میں سے آئی پی پیز کو 168ارب دے دیئے ہیں، 56ارب پی ایس او کو دیئے ہیں مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے جب گرمی بڑھنے سے بجلی کی طلب بڑھے گی تو قرضے بھی بڑھیں گے جبکہ کسی طرح ممکن نہیں ہوگا کہ ان کی فوری ادائیگی ہو سکے پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں کی یہ کہانی دُہرائی جائیگی؟
اس وقت سب سے بڑی بجلی چور خود حکومت ہے، سرکاری ادارے نہ صرف چوری کرتے ہیں بلکہ بجلی کے بل بھی ادا نہیں کرتے، یہ سارا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ عوام کی اکثریت بجلی کے بل بھی وقت پر دیتی ہے اور بجلی چوروں کے حصے کے ناجائز بل بھی ادا کر رہے ہیں۔ مگر حکمراں ہیں کہ عوام کو سبز باغ دکھانے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس وقت بجلی کی پیداوار 12ہزار میگا واٹ اور طلب 16ہزار 8سو میگا واٹ ہے جبکہ شارٹ فال 4ہزار 700میگا واٹ ہے، جو گرمی کیساتھ ساتھ مزید بڑھے گا۔ جہاں تک وزیر خواجہ کا یہ دعویٰ ہے کہ اپریل کے آخر تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی ہم نے آئی پی پیز کو ادائیگیاں کر دی ہیں۔ یہ ٹھیک ہوتا تو آئی پی پیز دھمکی نہ دیتے کہ اگر حکومت نے اربوں روپے کی ادائیگی نہ کی تو حکومتی گارنٹی کیش کروا لیں گے اور مئی میں پیداوار نہیں بڑھائی جائیگی۔ اربوں روپے کی لاگت سے مکمل ہونیوالے نندی پور اور بھکھی پاور پلانٹ پہلے ہی بند ہیں، ان سے پیداوار صفر ہے جبکہ نیلم جہلم کے حالات بتاتے ہیں کہ اس سال کے آخر تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو گا اور یہ لوڈشیڈنگ ہی حکمرانوں کے گلے کا طوق بنے گی کیونکہ اس وقت چھوٹے شہروں میں 18گھنٹے جبکہ بڑے شہروں میں آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے اور بغیر کسی شیڈول بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پانی بھی نایاب ہو گیا ہے۔ ’’وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ 2013میں بجلی نہ ہونے کے باعث لوگوں کا روز گار ختم ہو رہا تھا، زراعت اور صنعت تباہ ہو چکی تھی جبکہ معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں اور لوگ لوڈشیڈںگ کی اذیت کے باعث ذہنی مریض بن رہے تھے، اب میں عوام کو خوشخبری دیتا ہوں کہ وزیراعظم کا لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ اسی سال کے آخر تک پورا ہو جائیگا‘‘۔ عوام کو یہ یاد ہے کہ وہ عوام جو ذہنی مریض بن گئے تھے اب مرنے لگے ہیں اور وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کے وعدے کی تکمیل کی بات کی ہے مگر اپنے اُن وعدوں کا ذکر نہیں کیا کہ اگر میں چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کر سکوں تو میرا نام تبدیل کر دینا۔ البتہ انہوں نے اپنا نام وزیراعلیٰ سے خادم اعلیٰ رکھ لیا ہے۔ عوام کو یہ معلوم ہے کہ ایک طرف پاناما کیس کا فیصلہ آنیوالا ہے اور لوڈشیڈنگ مزید بڑھ گئی ہے اب تو حکمراں ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ اگرفیصلہ اُن کے حق میں آتا ہے تو پھر وہ قبل از وقت انتخابات کروانا چاہیں گے مگر اُن کی کارکردگی تو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے دیکھی جائیگی اس لئے وہ الیکشن نہیں کروا سکیں گے۔ لیکن اگر فیصلہ خلاف آیا تو پھر پی پی اور تحریک انصاف الیکشن کیلئے سڑکوں پر ہونگے مگر توانائی بحران کی وجہ سے حکمراں بے بس ہوں گے۔ عوام کا خیال ہے کہ حکمرانوں کو بجلی کا بحران لے ڈوبے گا۔ گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے حالات سب کے سامنے ہیں حالانکہ اُس نے 1973آئین کا بحال کیا، 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خود مختاری دی لیکن لوڈشیڈنگ ختم نہ کر سکی اور انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں، آئندہ عام انتخابات کا تو انحصار ہی انرجی بحران کے خاتمے پر ہے۔
لوگ کا خیال ہےکہ عوام کیلئے یہ لوڈشیڈنگ ختم کرنا حکمرانوں کی ترجیح نہیں یہ تو صرف سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ کیونکہ ن لیگ کی حکومت کے دورانیہ میں کے پی حکومت نے بجلی کے بحران کو ختم کرنے کیلئے کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا یہی حالت صوبہ سندھ کی ہے۔ جتنے بھی بجلی کے منصوبے شروع ہوئے ہیں وہ پنجاب میں ہیں اور وہاں بھی نہیں لگتا کہ اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائینگے اور جب تک یہ مکمل نہیں ہوتے ن لیگ انتخابات کا اعلان نہیں کرے گی۔ گزشتہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی پنجاب میں ایسے کوئی منصوبے شروع نہیں ہوئے تھے۔ بس سمجھ لینا چاہئے کہ لوڈشیڈنگ پر سیاست ہو رہی ہے۔ اگر حکمراں ملک سے مخلص ہوتے تو کالا باغ ڈیم بنانے اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترجیح دیتے۔ ہمارے ملک میں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں مگر 70سال تک ہم ان کو استعمال میں نہیں لا سکے۔ اس وقت یہ پروپیگنڈا بڑے عروج پر ہے کہ7ہزار میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت سی پیک کے تحت زیر تعمیر ہے۔ اسی کی بنیاد پر دعوے کئے جا رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی۔ ان کی تعمیر الیکشن سے پہلے مکمل ہوتی ہے یا نہیں لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار ممکن ہے کہ جس طریقے سے یہ معاہدے ہوئے ہیں وہ عملی صورت کیسے اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ اس وقت بھی ملک میں بجلی پیدا کرنے کے جو نجی پلانٹس ہیں وہ اپنی پوری پیداوار نہیں دے رہے جس کی وجہ ادائیگیاں ہیں، کیا حکومت کے پاس مستقل طور پر یہ انتظام موجود ہے کہ وہ نئے معاہدوں کے مطابق ادائیگیاں کر سکے۔ ایسا کوئی انتظام ممکن نظر نہیں آتا اس لئے لوڈ شیڈنگ پر سیاست تو جاری رہے گی مگر لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوگی۔ نقصان اس ملک اور عوام کا ہوگا !



.
تازہ ترین