• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوم دستور’’گیم لگ چکی، منتخب وزیراعظم ٹارگٹ ہے!‘‘

10اپریل 2017کو قومی سطح پر ’’یوم دستور 1973ء‘‘ منایا گیا۔ قومی اخبارات کے خصوصی ایڈیشنوں نے آئینی جدوجہد کی تاریخی عظمت سے روشناس کرایا، اعتراف کیا، اہل اقتدار و فکر نے اس حوالے سے ان تخصیصی اشاعتوں میں اپنے خیالات قلمبند کئے۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی قومی آئینی سفر کی عملی علامت ہے، چیئرمین نے صبر اور انتظار کے ساتھ پاکستانیوں کو ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی ناگزیریت کا جزو بنادیا ہے۔ اب ’’آئین نہیں روٹی چاہئے‘‘ جیسا جاہلانہ یا مکارانہ جملہ ان پر غیر موثر ہو چکا ہے، عوامی ایوان سے صدا ابھرتی ہے ’’آئین ہی روٹی کی ضمانت ہے!‘‘
10 اپریل 2017کو ’’یوم دستور‘‘ یا یوں کہہ لیں ’’دستور 1973ء کی 45ویں سالگرہ‘‘ کے موقع پر سینیٹ (ایوان بالا) میں جو تقاریر ہوئیں ان کا خلاصہ یہ تھا! ’’آئین پر عملدرآمد کے لئے مائنڈ سیٹ ہونا چاہئے۔ یقین ہونا چاہئے کہ آئین کی بالادستی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ (ہئیت مقتدرہ) نے آئین کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ ضیاء اور مشرف کے مارشل لا اور ان کی ٹیم کو تاحال سزا نہیں دی گئی، مائنڈ سیٹ کی کئی جہتیں ہیں، وردی میں ملبوس زیادہ محب وطن ہیں، سول والے کم محب وطن ہیں، یہ اس وردی کا شاخسانہ ہے کہ سیکورٹی ادارے جو بھی کریں وہ محب وطن ٹھہرتے ہیں اور منتخب وزیراعظم سیکورٹی رسک قرار پاتا ہے، آئین کو پامال کرنے والے کا پارلیمنٹ کچھ نہیں کر سکی، خود کو مقدس گائے سمجھنے والوں کو اس مقدس دستاویز کے تابع کرنا ہو گا، آئین کی تعلیم کو پاکستان کی ملٹری اکیڈمی میں پڑھانا چاہئے!‘‘
یاددہانی کے لئے دستور 1973ء کی اصولی تفصیل!
’’پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کو قومی اسمبلی نے ’’10اپریل 1973‘‘ کو کثرت رائے سے منظور کیا۔ 12 اگست 1973ء کو صدر مملکت نے اس پر دستخط کئے، 14 اگست 1973ء کو اسے ملک بھر میں نافذ کر دیا گیا۔ چالیس برس بعد چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی مسلسل محنت اور کوشش کے نتیجے میں اس کے ’’یوم منظوری‘‘ یعنی ’’10؍ اپریل‘‘ کے ان کو ’’یوم دستور‘‘ کی حیثیت سے منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سینیٹ میں رحمان ملک نے اپنی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’’بابائے دستور‘‘ قرار دینے کا واقعاتی مطالبہ کیا، ایسا مطالبہ جس کو تسلیم کئے جانے کے آخری سنگ میل تک کسی غیر حقیقی یا متنازع نشان کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی!
پاکستان کے موجودہ منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف نے ’’یوم دستور‘‘ (’’یوم سعید‘‘ کہنے کو بھی دل چاہتا ہے) پر قوم کو مبارکباد کا پیغام دیا، یہی بنتا تھا، جس اَمر نے پاکستان کی بقاء اور قومی یکجہتی کی ضمانت دی اس اَمر کی یادگاریادیں ’’مبارکباد‘‘ ہی کا استحقاق رکھتی ہیں، محمد نواز شریف نے احساس دلایا، ’’آئین متحد اور مضبوط وفاق کی بنیاد فراہم کرتا ہے، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لئے قوم کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، آئین عوام کے بنیادی حقوق کا بلا امتیاز تحفظ کرتا ہے، ہماری ذمہ داری ہے آئین پاکستان کے خلاف کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیں، آج کا دن آئین کے لئے عوام اور رہنمائوں کی انتھک کوششوں کی یاد دلاتا ہے، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لئے قوم کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ یوم دستور منانے کی روایت آئینی بالادستی کی تجویز ہے۔ یوم دستور سے آنے والی نسلوں کو جمہوریت اور جمہوری طرز حکومت سے آگاہی ہو گی۔‘‘
’’یوم دستور 1973ء۔ قومی تاریخ کے اس ناقابل فراموش تذکرے میں موجودہ منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف کا بیان تو ریکارڈ کا حصہ رہے گا ہی البتہ ’’منتخب وزیراعظم‘‘ کے ذکر سے پاکستان کا گزرا ملکی عہد نگاہوں میں پھر گیا ہے، آپ ذرا اپنے وزرائے اعظم کی داستان گم گشتہ ملاحظہ فرماتے چلیں!
جناب محمد نواز شریف مجموعی طورپر ملک کے ’’12ویں منتخب وزیراعظم ‘‘ہوں گے، 5جون 2013سے پہلے ملک کے وزرائے اعظم کے اسمائے گرامی یہ ہیں (1) لیاقت علی خان (2)خواجہ ناظم الدین (3)محمد علی بوگرہ (4)چوہدری محمد علی (5)حسین شہید سہروردی (6)ابراہیم اسماعیل چندریگر (7)ملک فیروز خان نون (8)نور الامین (9)ذوالفقار علی بھٹو (10)محمد خان جونیجو (11)محترمہ بے نظیر بھٹو (12)میاں محمد نواز شریف (13)محترمہ بے نظیر بھٹو (14)میاں نواز شریف (15)میر ظفر اللہ خان جمالی (16)چوہدری شجاعت حسین (17)شوکت عزیز (18)یوسف رضا گیلانی (19)راجہ پر ویز اشرف۔
نگران وزرائے اعظم!
(19)غلام مصطفیٰ جتوئی (20)میر بلخ شیر مزاری (21)معین قریشی (22)ملک معراج خالد (23)محمد میاں سومرو (24)میر ہزار خان کھوسو، آپ ان تفصیلات میں سے ’’12منتخب وزرائے اعظم‘‘ کے نام الگ کرکے ان میں نے ہر ایک کےانجام کا مطالعہ کریں (سینیٹ کا دور ہے،زیادہ سر کھپائی نہیں کرنا پڑتی )،یہ مطالعہ آپ کو پاکستان میں ’’آئین پر گھات ‘‘ کے کرداروں اور ان کی تباہ کن سرگرمیوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتا جائے گا۔ ہر پاکستانی کے لیے یہ حددرجہ لازم ہے آ پ اسے قومی عبادت کی اصطلاح بھی دے سکتے ہیں،یہ محنت آپ کو پاکستان کی بقا اورقومی یک جہتی کی پیداواری عملیت میں حصہ ڈالنے کے شعور اورعمل کے مطلوبہ معیار اور طریقکا ر سےآشنا کرے گی۔
منتخب وزرائے اعظم کی بات چھڑنے سے موجودہ منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف کے معاملے کو تازہ ترین صورت حالات میں دیکھ لینے سے بھی ہمیں ماضی کی تصدیق ہو جائے گی۔
پاناما کیس، اس کی خبر 4اور 5یا 5اور 6؍ اپریل 2016ء کی صبح اخبارات میں شہ سرخیوں کے ’’پھٹوں‘‘ کے ساتھ قومی پریس (اردو اور انگریزی) پر چھائی ہوئی تھی، جوں جوں دن چڑھتا گیا توں توں الیکٹرانک میڈیا کے تمام چینلز کی چیخ چنگھاڑ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، اس کے بعد تو داستانِ ہفت خواںکے ابواب ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہے، عدالت عظمیٰ تک ان چینلوں کا مرغوب موضوع ہے اس کے متوقع قصے پر ان کے اسلوب گفتگو اور اسلوب تجزیہ کی مقدار نے ’’توہین عدالت‘‘ کے قانون کو غالباً ادھ موئے سے بھی بڑی زخمی حالت کا شکار کر دیا ہے!
خیر گفتگو ہو رہی تھی 4اور 5یا 5اور 6؍اپریل 2016ء کی صبح کے پس منظر میں، یہاں پہ بہت ہی خاص الخاص یادداشتی نکتہ نہ بھولیں، ان دونوں میں سے جو بھی درمیانی رات تھی اس رات کے 2بجے تک ’’پاناما‘‘ کا کوئی ٹکر چلا ہو تو چلا ہو، چینلوں پر کسی قسم کے کسی ہلے گلے کا وجود اور ایک طرف، آثار تک موجود نہ تھے، پاکستان کی صحافت میں لیکن خاکسار نے کم از کم اپنی 45برس سے زائدڈیلی جرنلز لائف میں پہلی بار یہ منظر دیکھا جس کی حیرت کا آخری سرا، تمام اردو و انگریزی اخبارات پر ایک ہی سائز اور انداز میں ایک ہی ’’نیوز لیڈ‘‘ کا غیر مشروط قبضہ تھا، اخبارات کے صفحات شاید پاکستانیوں کو کسی ’’قیامت صغریٰ‘‘کے بجائے کسی ’’قیامت کبریٰ‘‘ میں مبتلا دیکھنے کے لئے تلے ہوئے تھے، بہرحال جس روز اس شور و غوغا سے وطن کی دھرتی کو ڈسٹرب کرنے کے مشن کا آغاز ہوا، اس صبح سے ایک دن یا دو دن بعد، پاکستان کے معتبر کالم نگار کا کالم شائع ہوا جس کا عنوان تھا، ’’گیم لگ چکی، ٹارگٹ منتخب وزیراعظم ہے!‘‘
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے دو تین روز پہلے ’’یوم شہدائے صحافت‘‘ سے خطاب کیا، وہاں ایک جملہ کہا، الفاظ یہ تھے، ’’مارشل لاء سے بُرا زمانہ انتظار کر رہا ہے، ہر ایک کے لئے الگ انصاف، آرٹیکل چھ کا ملزم عدالت میں نہیں آتا، قانون کیا کرے‘‘
چیئرمین سینیٹ خاکسار سے کہیں زیادہ علم اور طاقت کے منصب پر تشریف فرما ہیں البتہ ایک اور خیال کے سننے میں ہی کوئی حرج نہیں جس نے ایک دعوت طعام کی سیاسی بحث سے جنم لیا، کالم نگار نے وہاں اپنا نقطہ نظر بیان کیا جس کے مطابق ’’پاکستان کی قومی تاریخ کا پلڑا آئینی توازن کے حق میں جھک چکا ہے، اب پاکستان کا منتخب وزیراعظم اور منتخب حکومت ’’رڑے سیاسی میدان‘‘ میں نہیں قومی سیاسی اداراتی نخلستان میں بسیرا کرتی ہے، اس کے چاروں اور ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی ناقابل شکست دیواریں موجود ہیں، انہیں گرانے کا خواب ممکن نہیں دکھائی دیتا کیونکہ ’’قومی تاریخ کا پلڑا آئینی توازن کے حق میں جھک چکا ہے!‘‘
پاکستانیوں نے یوم دستور 1973ء نہیں منایا، ذوالفقار علی بھٹو کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا ہے۔
’’آئین ہی پاکستان تھا، آئین ہی پاکستان ہے، آئین ہی پاکستان ہو گا‘‘۔




.
تازہ ترین