• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں16اپریل کے صدارتی ریفرنڈم کو اب جبکہ صرف چار دن باقی رہ گئے ہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی پروپیگنڈہ مہم میں بڑی تیزی آگئی ہے اور سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج کو چھو رہا ہے۔ ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے خواہاں ایردوان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ صدر ایردوان اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک کا موجودہ پارلیمانی نظام ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سن 1923ء میں اپنے قیام سے لے اب تک ترکی میں 65 حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں اور یوں ہر حکومت کی عمر تقریباً 18 ما ہ بنتی ہے(ترکی میں کثیر الجماعتی جمہوریت کا آغاز 1950ء ہی میں ہوا تھا یعنی 1923ء سے 1950ء تک ری پبلکن پیپلز پارٹی ہی ملک میں واحد جماعتی نظام کی وجہ سے برسر اقتدار رہی تھی اور اگر اس دور کو پارلیمانی نظام سے نکال دیا جائے تو ہر حکومت کا دور اقتدار اٹھارہ ماہ سے بھی کم بنتا ہے جس سے پارلیمانی نظام کے کس قدر غیر مستحکم ہونے کی عکاسی بھی ہو جاتی ہے ) اگرترکی میں ہر حکومت اپنی میعاد پوری کرتی تو شاید ملک میں سیاسی استحکام قائم ہوسکتا تھا اور ترکی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا لیکن عدنان میندرس کی مضبوط حکومت کے بعد ملک میں سیاسی افراتفری ، مارشل لاکے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا ۔ ستر کی دہائی ترکی کی سیاسی تاریخ میں سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھتی ہے جب ملک دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کے بھنور میں پھنس کر رہ گیا تھا اور پھر 1983ء سے 1987ء تک ترگت اوزال نے ملک میں سیاسی استحکام قائم کرتے ہوئے ملک میں نج کاری کو فروغ دیا اور اسے کمیونسٹ طرز کی چھاپ سے نکال کر ایک آزاد اورخود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا بھر سے متعارف کروایا۔ ترگت اوزال کے بعد آق پارٹی کے 2002ء میں برسراقتدار آنے تک ملک ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کا شکارہوکر مالی لحاظ سے دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گیا۔ ملک میں ایک سال سے بھی کم مدت کی حکومتوں کے دور میں کوئی منصوبہ بندی کرنا اور ان پر عمل کروانا ممکن ہی نہ رہا اور یوں ترکی سیاسی عدم استحکام کے شکار ممالک میں سرِ فہرست رہا ۔ 2002ء سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی)کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہی سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک نے کئی ایک ممالک کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کے پہلے سولہ اقتصادی طاقتور ممالک میں اپنی جگہ بنالی اور اب ایردوان ترکی کو دنیا کے پہلے دس ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ایسا وہ صرف ملک میں صدارتی نظام نافذ کرکےہی کرسکتے ہیں کیونکہ پارلیمانی نظام میں بہت سا وقت پارلیمانی جماعتوں کے بحث و مباحثے کی نذر ہوجاتا ہےاور سیاسی جماعتیں جنہیں دس سے بیس فیصد ووٹ بھی بمشکل حاصل ہو پاتے ہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف حکومت گرانے میں صرف کر تی ہیں ۔ نئے نظام کے تحت اب کسی بھی سیاسی جماعت کے صرف پندرہ سے بیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے اقتدار میں آنے کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے اور اس وقت حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (CHP)جس کو کبھی 25 فیصد سے زائد ووٹ نہیں ملے ہیں اسی غم میں مبتلا ہے کہ کسی طرح وہ اس نظام کو ترکی میں لاگو ہونے سے بچائے رکھے ۔ اسی وجہ سے اس پارٹی نے صدارتی نظام کی مخالفت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ملک میں صدارتی نظام کی مخالفت کرنیوالے ایردوان پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ تمام اختیارات صرف ایک ہی شخص کو حاصل ہو جائیں گے، صدر غیر جانبدار نہیں رہے گا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی پارٹی کے چیئرمین کا عہدہ بھی اپنے ہاتھوں میں رکھ سکے گا ،ملکی نظم و نسق ایک ہی ہاتھ میں مرکوز ہو کر رہ جائے گا اور یوں صدر کو آمر یا ڈکٹیٹر بننے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا لیکن جب آپ ماضی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ صدر مصطفیٰ کمال اتاترک اور صدر عصمت انونو دونوں ہی ملک میں طویل عرصے تک اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھے رہے اور دونوں ہی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے چیئرمین بھی رہے ہیں جبکہ اب اسی جماعت کے رہنما ایردوان پر صدر ہونے کےساتھ ساتھ سیاسی جماعت کا چیئرمین ہونے کا الزام لگا رہے ہیں حالانکہ اب یہ سب کچھ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ہی کیا جا رہا ہے جبکہ ماضی میں ایسا کرنا آئین کی خلاف ورزی تھا ۔
اس وقت ترکی میں صدارتی ریفرنڈم کے بارے میں مختلف سروے کروائے جا رہے ہیں۔ ان سروئیز کے مطابق دونوں بلاکوں ( ریفرنڈم کے حق اور ریفرنڈم کے خلاف) میں سخت مقابلہ جاری ہے اور اس وقت تک صدارتی نظام کے حق میں52فیصد اور اسکے خلاف48 فیصد ووٹ پڑے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار نہ کرنے والے دس فیصد عوام آخری مرحلےمیں اس شرح کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہاں پر یہ عرض کرتا چلوں کہ اس وقت آق پارٹی استنبول اور ازمیر میں اپنی ریلیوں میں دو ملین کے لگ بھگ عوام کو جمع کرنے میں کامیاب رہی ہے جس سے عوام کے واضح طور پر صدارتی نظام کے حق میں فیصلہ جانے کی عکاسی ہوجاتی ہے۔ صدارتی نظام کیخلاف ری پبلکن پیپلز پارٹی ابھی تک کوئی قابلِ ذکر ریلی نکالنے میں کامیاب نہیں رہی ہے بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے اور علاقائی سطح پر ہی ریلیاں نکالنے پر اکتفا کررہی ہے۔ اسی طرحCHP کی ہمنوا پارٹی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی(HDP) جسے کرد ووٹروں کی حمایت حاصل ہےمشرقی اور جنوب مشرقی صوبوں میں ابھی تک اپنے ووٹروں کا قابلِ ذکر اجتماع کرنے سے قاصر رہی ہے۔
کالم کے آخر میں اس ریفرنڈم کے نتائج کے بارے میں اپنا ذاتی جائزہ پیش کرتا چلوں۔ اس ریفرنڈم میں آق پارٹی بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کرلے گی اور اسے کم از کم 54فیصد کے قریب ضرور ووٹ ملیں گے۔اس وقت ریفرنڈم میں دو بلاک ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں پہلے بلاک میں آق پارٹی، نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی اور چند ایک چھوٹی پارٹیاں شامل ہیں ۔ ان جماعتوں کو گزشتہ عام انتخابات میں جس تناسب سے ووٹ پڑے اگر انکو جمع کیا جائے تو کچھ یوں تناسب بنتا ہے۔ آق پارٹی کو گزشتہ عام انتخابات میں پچاس فیصد کے لگ بھگ ووٹ پڑے جبکہ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کو 13 فیصد کے لگ بھگ ( یہ جماعت اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔بڑا دھڑا جو آق پارٹی کے ساتھ ہےاسے آٹھ فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے)۔ آٹھ فیصد ووٹ اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ایک فیصد ووٹ جمع کرنے سے 58فیصد ووٹ پڑتے ہیں جبکہ ریفرنڈم کے خلاف ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو صورتِ حال کچھ یو ں بنتی ہے۔ ترکی میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی جو آج تک کبھی 25 فیصد سےزائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اگر اس کے تمام کے تمام ووٹرز ریفرنڈم کیخلاف ووٹ ڈالیں تو یہ تعداد پچیس فیصد بنتی ہے۔ اسی بلاک میں کردوں کی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی HDP جسے گزشتہ انتخابات میں دس فیصد ووٹ پڑے تھے میں سے سات فیصد کے لگ بھگ ووٹرز ریفرنڈم کی مخالفت کررہے ہیں کےووٹوں کو جمع کیا جائےتو پچیس جمع سات یہ تعداد بتیس فیصد بنتی ہے جبکہ یہ بلاک ابھی تک پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کرتا چلا آرہا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ صدارتی ریفرنڈم کے خلاف قائم یہ بلاک کیسے معجزہ دکھا پاتا ہے تاہم حالات آق پارٹی کی واضح کامیابی کی عکاسی کررہے ہیں۔



.
تازہ ترین