• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچاس کی دہائی سے پاکستانی کمیونٹی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے دوسرے ممالک ہجرت کر رہی ہے ،جہاں اِن ’’کماؤ پتروں ‘‘نے دن رات محنت مزدوری کرکے اپنے اہل خانہ اورعزیز رشتہ داروں کے حالات بہتر بنائے وہیںاپنی کمائی کوپاکستان کا قومی خزانہ سیراب کرنے اور ملکی معیشت کے بڑھاوے میں زرِ مبادلہ کی صُورت پیش کیا ۔پاکستان میں آج تک جتنی حکومتیں برسرِ اقتدار رہیں سب نے سمندر پار پاکستانیوں کو ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی اور وطن کا بہترین سرمایہ تو قرار دیا ، لیکن صد افسوس کہ کوئی حکومت تار کین و طن پاکستانیوں کے مسائل کو سننے ، انہیں حل کرنے یا اُن مسائل میں کمی کرنے کے لئے کسی قسم کی کوئی پالیسی مرتب نہ کر سکی ۔تارکین وطن پاکستانیوں کی اپنے دیس میں بنائی گئی جائیدادوں پر ناجائز قبضے اور اُن کے بچوں کو تاوان کے لئے اغوا کئے جانے کے واقعات رُونما ہوتے رہے، اوورسیز پاکستانیوں کے’’ جُوتے ‘‘ ٹُوٹ جاتے لیکن اُن کے نقصان کی رپورٹ مقامی تھانوںمیں درج نہ ہو پاتی ، وہ اس لئے کہ اغوا اور ناجائز قبضہ کرنے والے مقامی پولیس کے ساتھ مل کر یہ سب کچھ کرتے تھے ۔جیسے جیسے دیارِ غیر میں تارکین وطن پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی گئی اُسی تیز رفتاری سے اُن کے مسائل بھی گمبھیر ہوتے گئے ، پہلے پہل تو اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے وطن کے مسائل نے گھیرا لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ مسائل سفارت خانوں اور دوسرے ممالک میں موجود قونصل خانوں تک آن پہنچے ، سفارت خانہ اور قونصل خانہ دیار غیر میں کسی پناہ گاہ سے کم نہیں تصور نہیں ہوتے ، مگر جب اُن پناہ گاہوں میں کماؤ پتروں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جانے لگا تو وہ بِلبلا اُٹھے ، تارکین وطن کی آہیں اور سسکیاں درخواستوں کی شکل میںحکومتی ایوانوں تک پہنچیں تو موجودہ حکومت نے پہلی بار اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو سنجیدگی سے سُنا اور اُن کے فوری حل کے لئے باقاعدہ کمیشن بنا دیئے ۔ پڑھنے والوں کو یقین کرنا ہوگا کہ آج سے ایک ماہ پہلے تک 85 فیصد تارکین وطن پاکستانیوں کو اپنے ملک کے اوورسیز منسٹر کے نام کا پتا نہیں تھا ، موصوف وزیر کا کسی کو پتا چلتا توبھی کیسے؟ کیونکہ وہ دوسرے ممالک میں آکر نہ تو تارکین و طن سے ملے اور نہ ہی کبھی اُن تک مسائل کی بازگشت پہنچی ۔خیر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ، پاکستان اوورسیز فائونڈیشن کے چیئر مین بیرسٹر امجد ملک جرات مندانہ قدم اُٹھاتے ہوئے اوورسیز منسٹر پیر سید صدر الدین راشدی کو برطانیہ لے آئے، یہ ا قدام شاید اس لئے ہو گیا کہ آج سے پہلے پاکستان اوورسیز فائونڈیشن کے چیئر مین پاکستانی سیاستدان ہوتے تھے ،لیکن موجودہ حکومت نے پہلی بارکسی اوورسیز پاکستانی امجد ملک کو یہ عہدہ دیا تھا،جنہوں نے وزیر محترم کو تارکین وطن کے مسائل سے آگاہی کے لئے سفارت خانوں اور برطانیہ کے مختلف شہروں میں موجود پاکستانی قونصل خانوں کا وزٹ کرایا ،جہاں پاکستانی کمیونٹی نے اوورسیز منسٹر کے دورہ کو خوش آئند قرار دیا اور وزیر موصوف کے سامنے مسائل کا ڈھیررکھ دیا ، جنہیں جلدی حل کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اوورسیز منسٹر نے پاکستانی کمیونٹی کے مختلف وفود کو یقین دلایا کہ یہ مسائل ہر حال میں حل کئے جائیں گے کیونکہ وزیر اعظم پاکستان نے سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں پاکستانی ہوائی اڈوں پر سہولتیں اور عزت دینے کے حوالے سے دو ٹوک فیصلے کئے ہیں ۔او پی ایف کے وفود چیئر مین کی قیادت میں گلف اور یورپی ممالک کے طوفانی دورے کررہے ہیں تاکہ اوورسیز کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے ۔اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے موجودہ حکومت نے او پی ایف کے علاوہ کچھ کمیشن بھی بنائے ہیں جن کے سربراہوں کا انتخاب بھی تارکین و طن پاکستانیوں میں سے کیا گیا ہے کیونکہ یہ لوگ اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کو جانتے ہیں ۔وفاقی محتسب اعلیٰ پاکستان کے ساتھ اوورسیز ایڈوائزر حافظ احسان کھوکھر کو بنایا گیا ، وفاقی مشیروزیر اعظم برائے اوورسیز پاکستانی برطانیہ میںمقیم زبیر گل کو بنایا گیا ، اِسی طرح نومبر2014میں اوورسیز کمیشن پنجاب بنایا گیا جس کے کمشنر بھی برطانیہ سے تعلق رکھنے والے افضال بھٹی ہیں ، یہ تمام ادارے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں ، تارکین وطن پاکستانیوں نے دیار غیر میں انہیںدرپیش مسائل کے حل کے لئے موجودہ حکومت کے اس اقدام کے بارے میں کہا ہے کہ ہمارے لئے بنائے گئے یہ محکمے بھی ، سابقہ حکومتی نمائندوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا ، اُن کے گریبان پر ہمارا ہاتھ ہو گا ، عوام کی ایک ایک پائی وصول کی جائے گی ،ایسا نہ کیا جائے تو ہمارا نام تبدیل کر دینا جیسے سیاسی نعروں کی طرح ’’ جھوٹے‘‘ثابت نہ ہوں ۔سمندر پارمقیم کچھ پاکستانی ’’ سیانے ‘‘ حکومتی نمائندوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں ہمیں دہری شہریت ، تارکین وطن کو ووٹ کا حق ، ڈرائیونگ لائسنس کی تبدیلی ، جن ممالک میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں پاکستانی بینک ، پاکستان کے کلچر سے جڑے رہنے کے لئے پاکستانی اسکول ، پاکستانیوں کی شادیوں ، سالگرہ ، قومی دن اور مذہبی تہوار منانے کے لئے اپنا کمیونٹی سینٹر ، جعلی پاسپورٹ کی منسوخی کے لئے کینسلیشن سر ٹیفکیٹ کا اجرا ، یورپی ممالک میں تارکین وطن کے لئے شناختی کارڈ کی ہوشربا قیمت میں کمی ،پاکستانیوں کی غیر ملکی بیویوںکے لئے پاکستان اوریجن کارڈ (POC)کی بندش ،سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں پاکستانی خواتین کا احترام ، پاسپورٹ اور دوسرے کاغذات کی تصدیق میں تاخیر ، پاکستانی اور مقامی حکومتوں کے بڑوں کا ایک دوسرے کے ملک کا سرکاری دورہ ،سفیر پاکستان اور قونصل جنرل کی مقامی کلچرل پروگرامز میں شمولیت اور پاکستانی کلچرل پروگرامز کو فروغ دینے جیسے مسائل کا حل اوورسیز کمشنرز ، ایڈوائزرز یا چیئر مین کے پاس نہیں بلکہ یہ کام وزارت داخلہ اور خارجہ سے وابستہ ہیں ، جس طرح اوورسیز منسٹر نے یورپ کا دورہ کیا ہے ویسے ہی وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کو یورپ کا دورہ کر کے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے اُن ممالک میں اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرنی چاہئیں۔ معافی چاہتا ہوں وزیر خارجہ لکھ دیا، یہ عہدہ تو پاکستان کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہی نہیں۔



.
تازہ ترین