• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی معیشت کے ممتاز تجزیہ کار وں تک کی جانب سے پاکستانی معیشت میں بہتری کے اعلانات کے باوجود موجودہ حکومت کے چار برسوں کے دوران برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں اضافہ جس کا لازمی نتیجہ تجارتی خسارے کا سال بسال بڑھتے چلے جانا ہے، بہرصورت ایک فوری توجہ طلب معاملہ ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی نو مہینوں میں تجارتی خسارہ ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی اڑتیس اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے ۔سال رواں کے مارچ میں پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں تجارتی خسارے میں تین اعشاریہ دو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو 77.34 فی صد کے مساوی بنتا ہے۔اگر یہی رجحان جاری رہا تو موجودہ مالی سال کے اختتام تک مجموعی تجارتی خسارہ تیس ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ وفاقی وزیر تجارت نے درآمدات میں اضافے کی وجہ ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے صنعتی مشینری وغیرہ کی درآمد میں اضافے کو قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قومی معیشت کے لیے ایک مثبت علامت ہے لیکن ہماری ٹیکسٹائل اور دیگر کئی روایتی برآمدات میں مسلسل کمی کا رجحان بہرحال منفی علامت ہے جس کا ازالہ ہوسکے تو بیرونی ادائیگیوں کا توازن یقینا بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق اقتصادی مشیر ڈاکٹر اشفاق احمد خان نے موجودہ حکومت کے چار برسوں میں ملکی برآمدات میں مسلسل کمی کو حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کو نہ صرف بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے بلکہ پوری اقتصادی حکمت عملی کا مکمل جائزہ لینے کے لیے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ حکومت کے بیرونی اور قرضوں میں مسلسل اضافہ اور ملک میں مہنگائی کی نئی لہر بھی قابل توجہ ہے۔ اپنے موجودہ دور کے آخری سال میں وزیر اعظم کو اقتصادی پالیسیوں کی خامیوں کے ازالے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ چار سال کی کوششوں کے مثبت نتائج ضائع نہ ہونے پائیں۔

.
تازہ ترین