• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویر جی کولھی کو کون نہیں جانتا۔ پاکستان میں انسانی حقوق سمیت سول سوسائٹی کے جتنے حلقے ہیں ان میں ویر جی کولھی ایک معتبر نام ہے۔ وہ چھوٹا بچہ جو خود تھر میں اپنے ہاری کنبے سمیت زمینداروں کی زمینوں پر جبری مشقت کے کیمپ میں قید رہا جسے رہائی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ کی ٹاسک فورس کے شکیل پٹھان نے دلوائی تھی۔ یہ لڑکا نہ فقط ظالم وڈیروں اور زمینداروں کی جبری مشقت کے خانگی جیل سے آزاد ہوا بلکہ ملک کے آزاد شہری کی طرح بڑا ہوا اور پھر اپنی تعلیم جاری رکھی اور آخرکار خود انسانی حقوق کا کارکن بن کر کتنے ہی زمینداروں کی نجی جیلوں میں قید ہاریوں جن میں بچے، عورتیں اور بوڑھے بھی شامل تھے جن میں اکثریت نام نہاد شیڈولڈ کاسٹ یا نچلی ذات کے ہندوئوں بھیل، کھولھی ذاتوں کے لوگوں کی تھی، مسلمان ہاریوں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی، ان کی رہائی میں ہمیشہ اگلے مورچوں پر رہا۔ اس نے انسانی حقوق کی لڑائی لڑی وہ پھر ہندو لڑکیوں کے زبردستی تبدیلی مذہب کے مبینہ معاملات ہوں کہ لتاڑے پچھاڑے ہوئے محروم نام نہاد نچلی ذات کے ہندوئوں کی عورتوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں، ویر جی کولھی ایسی خواتین کو انصاف دلانے کیلئے ہمیشہ سرگرم رہا۔ اس نے سلسلہ تعلیم بھی جاری رکھا، وکالت پاس کی اور پھر قانونی پریکٹس کیلئے بار کونسل کی سند لیکر وکالت بھی کرتا رہا۔ ویر جی کولھی پاکستان کی بین الاقوامی طور پرمعروف انسانی حقوق کی سرگرم کارکن خواتین کے حقوق کی چیمپئن اور لکھاری ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مہر گڑھ پروجیکٹ میں بھی کام کرتا رہا تھا۔ تھر پارکر میں اپنے کولھی بھیل میگھواڑ، لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف وہ ہر ایوان اور اختیاریوں اور عدلیہ کے دروازوں پر گیا۔ یہ تھر کے ایدھی مسکین جہان خان کھوسو، فقیر مقیم کنبھر، علی نواز کھوسو کے بعد ویر جی کولھی ایک ایسا کردار ہے۔ ویسے تو تھر نے کئی وڈیرے، ارباب، پٹیل اور کامریڈ بھی پیدا کیے ہیں لیکن تھر میں ہی تھر کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا وہ بھی بالکل پسی ہوئی برادری کے ساتھ دور دراز نگر پارکر میں کارونجھر پہاڑ کی وادی میں وہ ویر جی کولھی تھا۔ جیسے حسن درس نے کہا تھا ’’کولھیوں کے ساتھ کولھی بنوں گا‘‘ لیکن ویر جو خود بھی کولھی تھا کولھی کا بیٹا، کڑمی کڑمی جو پٹ (یعنی کسان کسان کا بیٹا) جو اپنی برادریوں کے طاقتوروں کے خلاف کھڑا ہوا۔ تھر میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے روپلو کولھی جیسے ہیرو کا بھی تعلق اسی نگر پارکر کے علاقے سے تھا۔ جو ویر اور جھونجھار ہے جس نے برطانوی استعماری سپاہیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے اسی کارونجھر کے پہاڑوں میں جان کی قربانی دی تھی۔
تو اسی کارونجھر پہاڑ کی وادی میں ویرجی ایسے ہے جیسے وہاں کی پارکری زبان میں کسی قدیم شاعر نے کہا تھا: کارونجھر کی چوٹی کو مر بھی جائو تب بھی مت چھوڑنا۔ اس وقت یہ پہاڑ دیپ کی طرح لگتا ہے جب اس پر مور کی آواز ابھرتی ہے۔ ویرجی کولھی نہ محض کارونجھر کے قیمتی پتھر کو لوٹ کر تھر سے باہر لے جانے کے خلاف سرگرم تھا جس میں با اثر لوگ ملوث تھے بلکہ وہ ایک بے بس کولھی لڑکی کستوری کے ساتھ ہونیوالی اجتماعی جنسی زیادتی اور پھر اس کے قتل میں اس کے ورثا کو انصاف دلوانے میں پیش پیش تھا۔ یہ واقعہ دو ہزار دس میں نگر پارکر میں بیرانو یونین کونسل میں ہوا۔ ویرجی پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے، اسے (جس کے خدشےکا اظہار اس نے امریکی کانگریس تک میں بھی کیا) اور اس کے خاندان کو قتل کی دھمکیاں بھی ملیں اور آخر کار اسے دو ہزار گیارہ میں کھوسہ قبیلے (جن کے کچھ لوگ مبینہ طور پر کستوری کے ساتھ ہونیوالی زیادتی میں نامزد ملزم تھے) کے ایک شخص کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا گیا۔ اس مقدمے میں کولھی قبیلے کے درجن بھر لوگوں کے نام دئیے گئے۔ اب مقامی سیشن عدالت نے ویر جی کولھی کو عمر قید اور باقی مبینہ ملزمان کو دو دو سال کی سزائیں سنائی ہیں۔ یہاں کیس اور اس کے فیصلےکے میرٹ اور ڈی میرٹ پر بحث نہیں ہے کہ یہ کام اپیل سننے والی عدالت اور فریقین کے وکلا کا ہے لیکن یہ ویر جی کولھی اس ملک میں لتاڑے پچھاڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کی پاداش میں کس طرح ’’فریم‘‘ کر دیا گیا ہے جس دن وہ اس کے دفاع کے وکلا کے مطابق نگر پارکر میں موجود ہی نہیں تھا بلکہ انسانی حقوق کے کسی اجلاس میں حیدر آباد میں تھا۔ ویر جی کولھی ایک ایسا کردار ہے جسے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان حکومت ایک رول ماڈل بنا کر پیش کرتی کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مسکین ترین اور سندھ کے وڈیروں کی نجی جیلوں میں سابقہ غلام کی سی زندگی سے کالے کوٹ تک کا سفر کیا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کیلئے جنگ کی ہے مگر یہ ملک تو اپنے وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیتا ہے ویر جی کولھی کی طرح لڑنے والے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ویرو کولھی کے گھر سے ٹھرے کی بوتلیں برآمد کر کے پولیس اپنی بہادری ثابت کرتی ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ اسی ویرو کولھی کو حال ہی میں انسانی حقوق کی کارکن کے طور پر صدارتی ایوارڈ دیا گیا ہے ویر جی کولھی کا تعلق حکمران پیپلز پارٹی زرداری سے ہے اور وہ اپنے علاقے کا کونسلر بھی ہے۔ ویر جی کولھی اب سینٹرل جیل حیدر آباد میں ہے اور اپنی اپیل کی شنوائی کا انتظار کر رہا ہے۔ اس پر مجھے خیبر پختونخوا کے نوجوان سہیل فدا کی آپ بیتی یاد آتی ہے اسے بھی قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا تھا جس کا احوال اس نوجوان نے ایک کتاب کی صورت دیا ہے۔ وہ آخر بیگناہ ہی ثابت ہوا۔
اسی طرح تھر پارکر ہی میں چلہیار کے علاقے میں کوئلے کی کانوں کے پانی کی پائپ لائن قریبی گائوں والوں کی زمینوں سے گزرنے پر اپنی متاثرہ زمینوں کے معاوضے اور متبادل کیلئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں نوجوان سندھی شاعر عابد عرف الماس نوہڑیو کو ’’دہشت گردی‘‘ کے الزامات میں دس سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ ’’کس کو پھانسی پر چڑھایا ہے کس کو معاف کیا میں نے ساری عمر حکومت کا رستہ صاف کیا میں نے‘‘ مجھے شیخ ایاز (جو کہ خود بھی فوجداری کے صف اول کے وکیل تھے) کی نظم یاد آتی ہے جو انہوں نےشاعر کو سزا کے پس منظر میں لکھی تھی۔ ’’پھر شاعر اور ساکھی کو ایسی دی سزا میں نے، ساری قوم ڈری مجھ سے اور سارا دیس بھی روتا ہے‘‘۔ تھر کا بچہ بچہ اور ٹیلا ٹیلا جانتا ہے کہ الماس نوہڑی دہشت گردی نہیں کر سکتا اس کا جرم کوئلے کی کمپنی کے متاثرہ مقامی لوگوں کی جدوجہد میں پیش پیش ہونا تھا اور اس کے خاندان کا تعلق حزب مخالف ارباب گروپ سے ہے۔
یہ کمزور ترین لوگوں کی بہت ہی موثر آوازیں ہیں جن کو سزائوں کا سامنا ہے۔
لیکن اب وہ لوگ جو سابق صدر اور زرداری کے شریک سربراہ کےخاص ہیں، کو اٹھالیا گیا ہے۔ غلام قادر مری، ان کے بائیں تھا تو اشفاق لغاری ان کے دائیں اور نواب لغاری انکے کاروباری رازوں کے رکھوالے۔ یہ لوگ پراسرار حالات میں پراسرار بندوں کے ہاتھوں غائب کیے گئے ہیں۔ جن کی گمشدگی پر زرداری صاحب نے ایک تجریدی لیکن پرمعنی جملہ بولا ہے کہ ’’طاقتور اداروں نے کمزور لوگوں کے دوستوں کو اٹھایا ہے لیکن ان لوگوں کے پاس موٹی موٹی مرغیاں ہیں اگر ان کی چونچ ذرا سی کسی کو لگ گئی تو بہت خون بہے گا‘‘ اس جملے کو سابق صدر زرداری کی طبیعت جاننے والے ہی ڈی کوڈ کر سکتے ہیں یہ لوگ کون ہیں؟
اس وقت وہ غائب ہیں تو یہ سندھی کہاوت صحیح ثابت کرنا غلط ہو گا کہ ’’بندھے ہوئے چور پر ہر کوئی ہاتھ اٹھاتا ہے‘‘ وہ لوگ خود ہائی پروفائل موٹی گردنیں ہیں کہ نہیں جو اس وقت واقعی ڈھاڈیوں کے ہاتھوں میں ہیں! لیکن ان کے بھی انسانی حقوق ہیں اور ڈیو پروسس کا ان کو بھی حق ہے کہ ان کو ظاہر کیا جائے اگر الزامات ہیں تو عدالتوں میں لائے جائیں۔ ان کا غائب کیا جانا خلاف انسانیت جرم ہے۔ اگر زرداری پی پی پی جب مرکز میں اقتدار میں تھی اور سندھ میں دس سالوں سے ہے سینکڑوں لوگوں کی گمشدگیوں پر کوئی سخت قانون بناتی، احتساب کرتی تو آج ان کو اپنے لوگوں کے سلسلے میں ایسے دن نہیں دیکھنا پڑتے اب بھی وقت ہےحکومت آنی جانی چیز ہے۔ اب انتخابات میں وقت رہ کتنا گیا ہے!

.
تازہ ترین