• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام کا صد سالہ عالمی اجتماع مولانا فضل الرحمن کی کرشماتی شخصیت کا بے نظیر عکس بنا، اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ صاحبانِ علم و حکمت ہی جانتے ہیں کہ اس اجتماع کےاتحادِ امت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بالخصوص دیگر سمیت پاکستان کا اکثریتی بریلوی مسلک جب اجتماع میں موجود نہیں تھا۔مولانا صاحب افغان طالبان کی ’جدوجہد‘ کو حق خیال کرتے ہیں، لہذا مولانا آخر وہ کونسا دم دارو کرینگے کہ اس جدوجہد کے برپاہوتے ہوئے اجتماع میں ظاہر کی جانے والی خطے میں امن اور پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کی آرزو پوری ہوسکے؟امام کعبہ نے امت کیلئے فرقہ واریت کو زہر قاتل قرار دیا، مولانافضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ہم فرقوں پر یقین نہیں رکھتے، سوال مگر پھر یہ ہےکہ پاکستان میں مذہبی لحاظ سےملت جو ٹکڑوں ٹکڑوں میں مقسم ہے، ایسا کس’ بنیاد‘ پر ہے؟ ہم کم علم ایسے کسی سوال کےجواب کا توان نہیں رکھتے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ یہ اہلِ علم ہی کا میدان ہے۔۔بعض حلقوں کا تاثر البتہ یہ ہے کہ اجتماع کا اصل مقصد 39ممالک کی فوج کی حمایت میں پاکستانی رائے عامہ کو ہموار کرنا تھا،لامحالہ جس کا سیاسی و تنظیمی فائدہ بھی تھا جو جے یو آئی کے حصے میں آیا۔ ہم دو چار حرف ازبر کرنے والوں نے مگر جو اثر لیا وہ یہ ہےکہ حضرت مولانا کمال کی شخصیت ہیں، جو جب چاہیں عرب و عجم کے علما، کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیتے ہیں اور پھر کوئی خواہ مدرسے میں پڑھتا ہو یا تبلیغی جماعت میں وقت لگاتا ہو، ان کے ایک اشارے پر آ جمع ہوجاتے ہیں۔
اجتماع سے قبل بھی اہلِ علم کا یہ موضوع بنا اور ازاں بعد بھی اس پر مباحث جاری ہیں۔آئیے اہل علم اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ مورخ منیر احمد منیر اجتماع سے قبل 30مارچ کو ایک معاصر میں لکھتے ہیں ’’مولانا فضل الرحمن جس جمعیت علمائے اسلام کا صد سالہ جشن منارہے ہیں سوال یہ ہے کہ اسے سو سال ہوئےبھی ہیں کہ نہیں، حتیٰ کہ جمعیت علمائے ہند، دراصل جس کی صدسالہ تقریبات مولانا منارہے ہیں، کے قیام کو بھی سو برس نہیںہوئے، جمعیت علمائے ہند کا پہلا اجلاس 28دسمبر 1919کو امرتسر میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں ہوا تھا۔ جمعیت علمائے ہند کی مخالفت میں 26اکتوبر 1945کو جمعیت علمائے اسلام قائم ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن کس جمعیت کے قیام کا صد سالہ جشن منارہے ہیں؟ صاف ظاہر ہےقیام پاکستان کی از حد مخالف جمعیت علمائے ہند کا‘‘۔ اسی معاصر میں جناب خورشید ندیم البتہ لکھتے ہیں ’’قمری تقویم کے مطابق جمعیت علمائے ہند کے قیام کو سو برس ہو گئے ہیں۔ 1919میں  یہ جماعت قائم ہوئی، مولانا حسین احمد مدنی نے جمعیت کے اجلاسوں میں کانگریس کے ساتھ تعاون اور مسلم لیگ کی مخالفت میں دلائل بیان کئے۔ مسلم لیگ کی قیادت کے باب میںمولانا مدنی اور مولانا مودودی کے خیالات ایک جیسے ہیں‘‘ دوسری طرف 17اپریل روزنامہ جنگ کے اشاعتِ خصوصی میں مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا محمد امجد خان کے جو مضامین شامل ہیں، ان میں ان حضراتِ محترم نے یہاں تک لکھ دیا ’’ پاکستان جے یوآئی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ یہاں تک کہ سرحد اورسلہٹ کا ریفرنڈم جیت کر جے یو آئی نے ایک تاریخ رقم کردی‘‘ دوسرے معنوں میں جمعیت علمائے ہند یا جے یو آئی سرحد (پختونخوا) کے ریفرنڈم میں خدائی خدمت گار تحریک کے موقف کے مد مقابل تھی۔ اس سلسلے میں ایک بزرگ عالم دین سے جاننا چاہا، تو انہوں نے فرمایا ’’ مدرسہ دیوبند، جمعیت علمائے ہنداور جے یو آئی ایک ہی ہیں۔ منیر احمد منیر نے تاریخ لکھی ہوگی مگر پڑھی نہیں ہے۔‘‘راقم کے اس سوال پر کہ 1966 میں قائم ہونے والے مدرسہ دیو بند کی صد تقریبات جو 1982میں ہوئی تھیں، کیا ان تقریبات کا افتتاح بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے کیا تھا؟تو انہوں نے فرمایا، یہ درست ہے۔بہر صورت یہ طے شدہ امر ہے کہ جس واقعہ کی جس قدر اہمیت ہوتی ہے اسی قدر وہ زیر بحث آتا ہے۔ زیر نظر نقطہ ہائے نگاہ کو یہاں رقم کرنے کے پسِ پشت بھی اس اہمیت کا اعتراف ہے۔
راقم کے خیال میں اس اجتماع کا دیگر کے علاوہ ایک عظیم فائدہ جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس اجتماع میں امام کعبہ کی امامت اور خطبہ جمعہ بہت سارے فروعی و مسلکی مسائل کے خاتمے کیلئے راہ نما بن سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر طریقہ نماز موضوع بحث بنا رہتا ہے بلکہ بسا اوقات تو یہ جھگڑوں کا باعث بھی بنتا ہے، یہاں تک کہ بدعتی قرار دے کر ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھی جاتی! اس سلسلے میں بالخصوص اہلحدیث اور اہل دیو بند میں مناظرے عام ہیں۔ اس اجتماع میں امام کعبہ جو عصر حاضرکے بڑے عالم ہیں نماز پڑھا رہے تھے، جو مقتدی تھے وہ بھی اکابر علما ہیں۔ امام صاحب رفع الدین کررہے تھے، مقتدی اہل دیو بند ایسا نہیں کررہےتھے۔ نہ تو امام صاحب نےفرمایا کہ چونکہ آپ اس طریقے پر نہیں ہیں جس پر میں نماز پڑھا رہا ہوں لہذا امامت نہیں کروں گا، اور نہ ہی مقتدی علما نے کہا کہ آپ چونکہ اس طرح نماز نہیں پڑھا رہے جس طرح ہم پڑھتے ہیں لہٰذا ہم نہیں پڑھیں گے! بلکہ امام و مقتدی خشوع و خضوع کا بے مثال نمونہ بنے ہوئے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں جن جن فروعات پر جھگڑے بلکہ ایک دوسروں کی مساجد پر قبضے تک ہوجاتے ہیں، ایسے اختلافات کی سرے سے بنیاد ہی نہیں ہے۔ کاش یہ اجتماع ایسے اختلافات کے خاتمے کے لئے سنگ میل بن جائے۔
اجتماع میں سب سے پتے کی بات جناب سراج الحق صاحب نے کی،انہوں نے فرمایا ’’پاکستان میں شریعت کے نفاذ میں بڑی رکاوٹ اسلام کی بات کرنے والوں کے اختلافات ہیں۔‘‘ ہمیں تو سراج الحق صاحب اور دیگر سیاسی علما اب تک یہ سمجھاتے رہے ہیں کہ امریکا اور یہود وہنود اوران کے ایجنٹ پاکستان میں اسلامی نظام نہیں چاہتے۔ اب سراج الحق نے انکشاف کردیا ہے کہ نہیں اصل رکاوٹ تو خود وہ ہیں جو اسلام کی بات کرتے ہیں! اگلے لمحے انہوں نے فرمایا’ ہم نے دینی جماعتوں کے اتحاد کا اختیار مولانا فضل الرحمن کو دے دیا ہے۔‘ یہ تو ماننا پڑے گا کہ جماعت اسلامی’ امت‘ کی خاطر اتحاد بنانے کا اعلان کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔قومی اتحاد، متحدہ مجلس عمل،ایم ایم اے وغیرہ ان ہی کی کوششوں کے ثمرات تھے،تاہم یہ ثمرات بعدمیںبد ذائقہ کیوں ہوجاتے ہیں، یہ البتہ صیغہ راز ہے !ابھی کل ہی کی بات تو ہے،جب جماعت نے ایم ایم اے (یار لوگ جسے ملا ملٹری الائنس کہتے تھے) بنائی جوشیخ اسامہ اور امیر المومنین ملا عمر صاحب کی تصاویر اٹھائے اقتدار میں آئی،اور جیسے ہی آمر پرویز مشرف کی 17ویں ترمیم کے حق میں ایم ایم اے نے ووٹ دیا،اتحاد کا اصل روپ سامنے آنے لگا، یہاں تک کہ قاضی حسین احمد کو کہنا پڑا، ’’جے یو آئی وہ ہڈی ہے جسے نہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اُگل سکتے ہیں۔‘‘

.
تازہ ترین