• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں تضادات بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ جو درسی کتابوں میں ترامیم کے لیے شور مچاتے رہتے ہیں، جن کا دعویٰ ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں، بقول ان کے، باہر سے آنے والے حملہ آوروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ خود تاریخ مسخ کررہے ہیں۔خود ہماری پارلیمان کے بعض ارکان یہ بھی نہیں جانتے کہ 23مارچ کو کیا ہوا تھا اور یہ کہ قراردادِپاکستان کس نے پیش کی تھی، جبکہ اُدھر ہم اس دن خوب جشن مناتے ہیں۔
ان درسی کتابوں پر کم ہی توجہ دی گئی۔ شاید دی بھی نہیں جا سکتی۔ مطالبات اور تجاویز ایسی ہیں کہ برِصغیر کی ساری تاریخ کو از سرِ نو لکھنا پڑے گا۔ بہت سے لوگوں کی تو یہ بھی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی ساری تاریخ ہی نئے سرے سے لکھی جائے۔ چودہ سو سال پہلے کے اکابرین کی جگہ حال کے لوگوں کا تذکرہ ہو، اور ہم ماضی کو با لکل فراموش کریں کہ اُس میں ہمارے لیے ایک خاص قسم کی رہنمائی ہے جو آج کے لبرل عناصر کو پسند نہیں۔ ممتاز صحافی اور اینکر حامد میر نے کچھ درسی کتابوں کا حوالے دیا جن میں جمہوریت پر آمریت کو ترجیح دی گئی تھی۔ بہت سے لوگوں کی یہی خوا ہش ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے۔
تاہم جو کچھ ممکن ہے اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے، کبھی کسی ٹی وی پروگرام میں،کبھی کسی کالم میں۔ ایک آدھ مثال سامنے ہے۔ ایک پروگرام میں ایک سے زیادہ بارکہا گیا کہ 1970کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کامیاب ہوئے تھے۔ کیا ایسا ہی ہوا تھا؟ یا ہم تاریخ کو توڑ مروڑ رہے ہیں؟ یا ہم اس ملک کی تاریخ کے اہم واقعات کو فراموش کرنے پر بضد ہیں؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے اندر کا مشرقی پاکستان کے خلاف بغض انجانے میں سامنے آرہا ہو؟ اور یہ کوئی بہت پرانی تاریخ نہیں ہے۔ ابھی وہ لوگ زندہ ہیں جن کی یادداشت میں 1970 کے واقعا ت تازہ ہیں۔ اُس وقت مشرقی پاکستان اِس ملک کے پانچ صوبوں میں سے ایک تھا۔ اور وہاں کی آبادی پاکستان کے باقی چار صوبوں کے برابر یا کچھ زیادہ تھی۔ انتخابات پورے ملک میں، یعنی مشرقی پاکستان اور باقی چار صوبوں میں ہوئے تھے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بھٹو کی پارٹی نے مشرقی پاکستان کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، اور باقی چار صوبوں میں سے وہ صرف دو صوبوں میں کامیابی حاصل کر سکی تھی۔ پاکستان میں ہونے والے1970کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ عوامی لیگ کو قومی اسمبلی کی 160نشستیں ملی تھیں، جبکہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کو صرف 81نشستیں مل سکی تھیں، وہ بھی صرف دو صوبوں میں۔ اب اگر ہم آج یہ کہیں کہ بھٹو نے 1970کے انتخابات جیتے تھے تو یہ ایسی ’’حقیقت‘‘ ہے جس کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں، ہاں پروگرام کرنے والوں یا کالم لکھنے والوں کی خواہشات ہو سکتی ہیں۔ دراصل انہیں خواہشات کی وجہ سے 1971میں ملک دو لخت ہوا۔ ایسے ہی نام نہاد دانشوروں نے، یہ گمان کیا جا سکتا ہے، بھٹو کو ورغلایا ہوگا کہ اقتدار شیخ مجیب کو منتقل نہ ہونے دیں۔ اگر آج وہ کہہ سکتے ہیں کہ 1970کے انتخابات میں بھٹو کامیاب ہوا تھا تو کچھ بعید نہیں کہ اُس وقت بھی وہ درپردہ بھٹو کوا یک غلط موقف پر اکساتے رہے ہوں۔
ان میں تو ایسے بھی دانشور ہیں جو یہ مانتے ہی نہیں کہ جب ایوب خان نے 1958 میں مارشل لاء لگایا تھا تو اُس وقت 1956کا ایک متفقہ آئین پاکستان میں نافذ تھا۔ اسی آئین کو منسوخ کر کے ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تھا۔ اس آئین کو منظور کرتے وقت، حسین شہید سہروردی نے کہا تھا اگر اس آئین کے تحت انتخابات ہو گئے تو ان کی جماعت بھی انہیں تسلیم کر لے گی۔ سہروردی بڑے رہنما تھے اور آج کے بچوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ آج کا دانشور اپنی ذاتی خواہشات کے سامنے اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر راضی ہی نہیں۔ اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کوئی اندازہ نہیں۔ اس بات کا ان سے کیا جواب لیا جائے کہ کیا اس طرح وہ ایوب خان کے مارشل لاء کی حمایت کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ اگر کوئی آئین تھا ہی نہیں تو ایوب خان نے کس دستاویز کو منسوخ کیا تھا اور مارشل لاء لگایا تھا؟
وہ تو یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا ہی نہیں۔ آئین کی دستاویز اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرف نے مارشل لاء لگائے بغیر ایک منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیاتھا، اسی طرح جیسے کراچی کی سڑکوں پر ایک لڑکا پستول دکھا کر آپ کو یا آپ کے کسی جاننے والے کو لوٹ لیتا ہے۔ مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد’’چیف ایگزیکٹو‘‘ نام کا ایک عہدہ آئین میں تلاش کر لیا تھا یا اُسے سجھایا گیا تھا۔ یہ کوئی عہدہ نہیں، بلکہ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ وزیراعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوگا۔ حیرانی کی بات ہے کہ لوگ مشرف پر مارشل لاء لگانے کا الزام لگاتے ہیں، حالانکہ اس کا جرم زیادہ سنگین ہے۔ اس نے فوج کے ادارے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ آئین میں اس کے جن احکامات اور اقدامات کو تحفظ دیا گیا ہے وہ سب ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کے احکامات اور اقدامات ہیں، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے نہیں، جیسا کہ ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو اور ضیا ء الحق کے احکامات کو تحفظ دیا گیا ہے۔
چلتے چلتے ایک آدھ دلچسپ حوالہ۔ مشرف کے اقتدار پر قبضے کے خلاف ظفر علی شاہ کی درخواست پر ارشاد حسن خان کی سربراہی میں عدالت ِعظمیٰ نے جو فیصلہ دیا اس کے کچھ حیران کن پہلو ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ فیصلہ، ضیاءالحق کے مارشل لاء کے خلاف، نصرت بھٹو کیس میں دیئے گئے فیصلے کی لفظ بہ لفظ نقل تھا، صرف ضیا کی جگہ مشرف کا نام لکھ دیا گیا تھا۔ اس پہلو پر شاید ہمارے وکلا نے بھی زیادہ توجہ نہیں دی۔ دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ ایک متاثرہ فرد، ظفر علی شاہ، مشرف کے اقدام کے خلاف عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرف نے اقتدار پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔ اب عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ یا تو اس درخواست کو تسلیم کر لیتی، یا مسترد کر دیتی۔ اس درخواست سے ہٹ کر کوئی اور فیصلہ دینا، خصوصاً ایسی رعایت دینا جو مانگی بھی نہیں گئی تھی، اور وہ بھی مدعا علیہ کو، انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عدالت نے بغیر مانگے، مشرف کو تین برس کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیدیا، ویسا ہی اختیار جیسا اس سے پہلے یہی عدالت ضیاء الحق کو دے چکی تھی۔ مگر ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے، کہ ماضی میں اعلیٰ عدلیہ نے کبھی کسی برسرِاقتدار آمر کے خلاف فیصلہ نہیں دیا۔ ایک فیصلہ عاصمہ جہانگیر کیس میں دیا گیا مگر اُس وقت جب یحییٰ خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا اور اس کا لگایا ہوا مارشل لاء تاریخ کے پہلے غیر فوجی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو اٹھانے کا اعلان کر چکے تھے۔

.
تازہ ترین