• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریباً ڈیڑھ دو ماہ پہلے میں نے کراچی کو درپیش مشکلات پر کئی کالم لکھنے کا فیصلہ کیا تھا، اس سلسلے میں‘ میں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے تین چار مسائل پر کالم بھی لکھے مگر بعد میں سندھ اور پاکستان کو درپیش مختلف مسائل کی بھرمار کی وجہ سے مجھے یہ سلسلہ وقتی طور پر منقطع کرنا پڑا مگر اب ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم سے الگ ہوکر ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کے نام سے ایک نئی تنظیم بنانے کے بعد ان تنظیموں کی طرف سے گزشتہ ایک دو ہفتوں سے کراچی کے مختلف مسائل پر مختلف انداز میں احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، ان میں سے ایم کیو ایم جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کے ہاتھ میں ہے، نے پہلے تو سپریم کورٹ میں مردم شماری کے حوالے سے ایک پٹیشن داخل کی جس میں ان کی شکایات کا محور سندھ، اس کے عوام اور سندھی بولنے والی سیاسی قیادت ہے، بعد میں انہوں نے موجودہ پی پی حکومت کے خلاف ایک ’’وائٹ پیپر‘‘ بھی جاری کیا ہے‘ اس ڈاکیومنٹ میں بھی ان کی زیادہ تر شکایات سندھ سے ہیں بلکہ وہ تو خود کو فقط کراچی کا باسی کہلانے تک محدود کئے ہوئے ہیں۔اس دوران پاک سرزمین پارٹی کی طرف سے کراچی پریس کلب کے سامنے کئی دنوں سے دھرنا دیا ہوا ہے، ان کے مطالبات اور Tone بھی زیادہ تر وہی ہے جو ایم کیو ایم پاکستان یا ان کے اصل قائد الطاف حسین کی رہی ہے، اس سے پہلے بھی جب مجھے ایم کیو ایم کی طرف سے ایسے مطالبات کئے جانے اور سندھ کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرنے پر لکھنا پڑا تو میں اپنی آرا ظاہر کرتے وقت کافی محتاط رہا ہوں، اس وقت بھی میرا رویہ یہی ہوگا‘ اس کے کئی اسباب ہیں‘ پاکستان سندھ کے عوام کو بہت عزیز ہے‘ سندھ کے عوام غلطی سے بھی کوئی ایسی بات کہنے سے پرہیز کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سندھ کے عوام اور اردو بولنے والےبھائیوں کے درمیان نفرت یا فاصلے بڑھنے کا امکان ہو، دوسری وجہ یہ ہے کہ اب 70,60 سال گزر چکے ہیں جو لوگ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے وہ بھی سندھ کے اتنے ہی باسی ہیں جتنے وہ سندھی ہیں جن کو ’’اصل سندھی‘‘ کہا جاتا ہے، حالانکہ سندھیوں کو یہ ٹرم اچھی نہیں لگتی‘ وہ اپنے اردو بولنے والے بھائیوں کو بھی اتنا ہی اصل سندھی سمجھتے ہیں جتنے وہ خود ہیں‘ نہ فقط بشمول کراچی مگر سندھ کے مختلف علاقوں میں آباد ہونے والے اردو بولنے والے بھائیوں کی اکثریت بھی خود میں اور ’’اصل سندھیوں‘‘ کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتی‘ اس کے علاوہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں سرگرم ترقی پسند اور لبرل اردو بولنے والے سیاسی قائدین تو ہر لحاظ سے سندھ کے حقیقی فرزند ہیں‘ خدانخواستہ اگر سندھ پر کوئی آفت آئی تو دنیا دیکھے گی کہ یہ اردو بولنے والے ترقی پسند اور لبرل سیاسی رہنما اور کارکن ایسی کسی بھی جنگ میں سندھ کے ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے۔
اب میں اس موضوع پر ’’جنگ‘‘ میں لکھے گئے اپنے پہلے کالم کا حوالہ دوں گا‘ میں نے لکھا تھا کہ وہ لوگ جو بیرون ملک سے آنے والے لاکھوں غیر قانونی غیر ملکیوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کو کراچی کا اصل باشندہ کہہ کر کراچی کو بے دریغ انداز میں نہ فقط Horizontally مگر Vertically بھی پھیلا رہے ہیں، یہ ہمارے مہربان یہ سب کچھ اس وجہ سے کررہے ہیں تاکہ یہ دعویٰ کریں کہ جناب کراچی کی آبادی سندھ کے باقی علاقوں کی آبادی سے زیادہ ہے لہٰذا یا تو ان کے حوالے کیا جائے یا کراچی کو الگ صوبہ بنایا جائے حالانکہ مجھے اس ایشو پر بھی اپنی رائے ظاہر کرنی ہے مگر یہ کالم طویل ہوجانے کے ڈر سے میں فی الحال خود کو فقط اس بات تک محدود کرتا ہوں کہ جناب اس طریقے سے کراچی کو Unmangeable بنایا جا رہا ہے‘ خدا نہ کرے کراچی کسی بڑی تباہی کا باعث نہ بن جائے۔ کئی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کراچی زلزلے کی فالٹ لائن پر ہے لہٰذا اس پر بڑی لمبی عمارتیں بنانے سے پرہیز کیا جائے جس طرح کوئٹہ میں کیا جاتا رہا ہے، اس کے علاوہ میں اس سے پہلے بھی یہ بات نوٹ کراچکا ہوں کہ کئی ماحولیاتی سائنسدانوں کو اندیشہ ہے کہ اگر سمندر میں دریا کے پانی کا بہائو جاری نہ رہا تو سمندر زمین پر چڑھ آتا ہے جس طرح اس وقت سمندر ٹھٹھہ اور بدین کی کئی لاکھ ایکڑ اراضی ہضم کرچکا ہے اور یہی کچھ کراچی کے علاقے ملیر کے ساتھ ہورہا ہے‘ ان سائنسدانوں نے یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے اور اگر یہی صورتحال جاری رہتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ آئندہ ساٹھ ستر سالوں کے دوران سارا کراچی سمندر کے اندر نہ ہو جائے۔ اب ہم پانی کا ذکر کرتے ہیں پانی تو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، کیا کراچی کی آبادی بے حساب بڑھنے کے بعد اتنی بڑی آبادی کے لئے مطلوبہ مقدار میں پانی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی جب پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال سے پوچھا گیا کہ جناب سمندر کے پانی کو کیوں سائنسی طور پر ٹھیک ٹھاک کرکے کراچی کے عوام کی پانی کی ضروریات پوری نہیں کی جاسکتیں تو انہوں نے کہا کہ کراچی شہر کا گندا پانی اور کارخانوں کا زہریلا مادہ جس مقدار میں سمندر میں گر رہا ہے اس حالت میں کتنے بھی جتن کیے جائیں یہ سمندری پانی انسان کے استعمال کے لائق نہیں بن سکتا۔ اس مرحلے پر میں بڑے احترام سے جناب مصطفیٰ کمال سے یہ سوال کروں گا کہ قبلہ جب آپ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کے ایم سی کے سربراہ تھے تو آپ نے کراچی کے اس گندے پانی کو صاف کرانے اور کارخانوں کے زہریلے مادے کو ضائع کرنے کے سلسلے میں کیا اقدامات کئے، آپ نے تو کچھ نہیں کیا۔ میں یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا چلوں کہ کراچی کے سمندر کو فقط کراچی کا آلودہ پانی اور کارخانوں کا زہریلا مادہ خراب نہیں کرتا مگر قبلہ آپ کو تو شاید پتہ ہی نہیں ہے کہ بڑی تعداد میں سمندر کے نزدیک قائم مذبح خانوں سے جانوروں کے ذبح کرنے سے نکلنے والا خون اور جانوروں کے کئی ناقابل استعمال عضو بھی سمندر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آپ کراچی کے سمندری کنارے سے کسی بیڑے میں بیٹھ کر سمندر میں آگے تو بڑھیں‘ آپ کو عملی طور پر تین سمندری بیلٹس نظر آئیں گے‘ ان میں سے ایک قدرتی سمندر، ایک کراچی کا آلودہ کالا پانی اور تیسرا سرخ رنگ کا بیلٹ نظر آئے گا۔

.
تازہ ترین