• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹی وی ایسا جادوئی ڈبہ ہے جس سے ذہن سازی اور تخریب اذہان کوئی بھی کام لیا جاسکتا ہے اس پر نشر کئے جانے والے ڈرامے،اشتہارات،نغمے ،گیت کسی بھی ملک کی ثقافت کا کھلا آئینہ دار ہوتے ہیں۔آج ہمارے ہاں کیسے ڈرامے ، اسٹیج شو اور فلمیں نشر ہورہے ہیں جن سے ناظرین اور نئی نسل کیا اثر لے رہی ہے اس کو زیر بحث لانے سے پہلے ماضی کے ڈراموں اور فلموں پر طائرانہ نگاہ ڈالنا ازحد ضروری ہے۔
مشرف دور سے قبل اکیلے سرکاری ٹی وی کی اجارہ داری تھی جہاں سنسر شپ کی سخت پابندی کا دور دورہ تھا۔ پاکستانی ٹی وی نشریات کو تین حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ پہلا دور1964سے لے کر 1980کا دور ہے جس میںتاریخ،فیوڈل ازم اور ہلکی پھلکی کہانیوں پر مبنی ڈرامے نشر ہوتے رہے۔ 1969 میں ڈرامہ خدا کی بستی نشر ہوا جو بہت مقبول ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ ہوئی اس وجہ سے 1974میں اسے دو بارہ نشر کرنا پڑا۔انڈیا اوریورپ میں اس ڈرامہ کو نصاب میں شامل بھی کیاگیا۔1971میں پیش کئے جانے والے ڈرامہ الف نون کے کرداروں الن اور ننھا کو کون بھلا سکا ہے جس میں کمال احمد رضوی اور رفیع خاور اپنے کرداروں میں امر ہوگئے۔1980 میں نشر ہونے والا ڈرامہ وارث محض چند اقساط کے بعد ہی ناقدین اور ناظرین دونوں کے دلوں میں ایسا گھر کر گیا کہ کلاسک ڈرامہ ٹھہرا ۔اس ڈرامہ نے فردوس جمال،محبوب عالم اور اورنگ زیب لغاری کو اداکاری کے کوہ ہمالیہ پر متمکن کردیا ۔ یہاں سے ٹی وی ڈرامے کے دوسرے دورکا آغاز ہوتا ہے۔اب کی بار مصنفین نے ا سکرپٹ میں نئے تجربات کئے جو انتہائی کامیاب رہے۔اس کا ثبوت1982 میںاس وقت منظر عام پر آیا جب ڈرامہ ان کہی بنایا نے آکر ڈرامہ انڈسٹری کو نئی جہت فراہم کی۔شہناز شیخ کے برجستہ جملے،جاوید شیخ اور سلیم ناصر کی اداکاری نے اس ڈرامے کو بے پناہ شہرت دی۔ 1987میں دھوپ کنارے کی کہانی نے مرینہ خان کوسپر اسٹار بنادیا۔الف لیلیٰ کے بعد 1993 میں عینک والا جن آیا تو اس نے بڑے تو بڑے بچوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ۔اس میں حقیقی زندگی اور سائنسی افسانہ یکجا کرنے کا نیا تجربہ کامیاب رہا ۔1985میں تنہائیاں جب نشر ہواکرتا تھا تو اس وقت سڑکوں پر ٹریفک غائب ہوجاتا تھا اس ڈرامہ کو عظیم ترین کلاسک کا درجہ دیا گیا۔نوے کی دہائی میں ڈرامہ اسکرپٹ نے نئی انگڑائی لی اور1998 میں شعیب منصور کا ڈرامہ الفا براوو چارلی نام کا شاہکار منظر عام پر آیا جس نے ٹی وی ریٹنگ کا نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔ اس کے بعد مشرف دور میں نجی ٹی وی چینلز میدان میں آگئے یہیں سے ٹی وی کے تیسرے دور کا آغازہوا۔
ڈش ، ڈی کوڈرز اور کیبل ٹی وی کے ذریعےبھارتی اور مغربی ثقافت کاجادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔جس کے بعد ٹی وی چینل اس کے اثر سے بچ نہ سکے۔ بھارتی کارٹون ، ڈراموں کے خلاف شکایات سامنے آنا شروع ہوئیں تو پیمرا تخلیق کیا گیا تاکہ ان نشریات پر چیک اینڈ بلینس رکھا جائے۔آج 89ٹی وی چینلز 24 گھنٹے ڈرامے، فلمیں اشتہارات اور اسٹیج شوز نشر کررہے ہیں لیکن وہ قومی ثقافت کے تحفظ اور فروغ کی بجائے تا ر تار کررہے ہیں۔اس کے لئے چند ٹی وی چینلز پر پیش کئے جانے والوں ڈراموں کی مثالیں کچھ یوں ہیںجن میں قانونی ،مذہبی اور ثقافتی اقدار کو تباہ کیا جارہا ہے۔
ایک ڈرامہ میں شوہر طلاق کے بعد منکر ہو جاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے جبکہ شوہر اسے واپس لے جانا چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کر دیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ ایک ڈرامہ میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتوی لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔
ایک ڈرامہ میں لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر ان کے بیٹے کے ساتھ رہنا شروع کردیتی ہے جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں۔
ایک ڈرامہ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لئے لڑکی خود شوہر تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا ناجائزہے۔ اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہو جائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے مگر پلان کر کے نہیں۔ایک ڈرامہ میں ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تا کہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔ایک ڈرامہ میں طلاق کے بعد بیٹی کا بہانہ بنا کر طلاق کو چھپایا گیا اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔ایک ڈرامے میں لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لئے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لئے اپلائی کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔ایک ڈرامہ میں لڑکی اپنے باپ کی وفات کے بعد اپنے دادا سے اپنا شرعی حق جائیداد میں حصہ کے لئے کیس کر دیتی ہے اور دادا کو اسے جائیداد دینی پڑتی ہے جبکہ والد کی وفات کے بعد دادا کی جائیداد میں شرعی طور پر پوتے یا پوتی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔سب جانتے ہیں کہ ٹی وی عوام الناس کی رائے بنانے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی اکثریتی آبادی دیہات میں موجود ہے جن کے پاس ٹی وی ہی تفریح کا بڑا ذریعہ ہےایسے میں ایک پوری پلاننگ اور تھیم کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑمروڑ کر پیش کرنا، اس طرح کے سوالات اٹھانا اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسہ کو متزلزل کرنا ہے۔کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا ایسا کوئی بورڈ نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل اس کا اسکرپٹ چیک کرے اور اس کی منظوری دے؟کیا حکومت نے ایسی کوئی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل نہیں دی جو ان مالکان کو ایڈوائس جاری کرے؟حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی؟کیا کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو اسلام اور پاکستان کے خلاف پیش کی جانے والی چیزوں کا نوٹس لے؟کیا کوئی ایسا میکنزم نہیں بن سکتا جو ہماری ثقافتی،مذہبی اقدار کے خزانے کے تحفظ کا ضامن ہو۔ وقت آگیا ہے کہ مذہب اور قانون کے برعکس نشر ہونے والے ڈراموں،اشتہارات کو بند کرنے کیلئے جامع سنسر پالیسی بنائی جائے تاکہ نت نئی اختراعات کا راستہ بند کیا جاسکے اور پاکستانی ثقافت اوررسوم و رواج کو بچانا ممکن ہوسکے۔



.
تازہ ترین