• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی نامور اور بہادر بیٹی اور عالمی انعام نوبیل پرائز کی حصہ بننے والی ملالہ یوسف زئی اپنے ملک کے اصل مہذب، متمدن اور مثبت تاثر کی علامت بن گئی ہیں اور گزشتہ بیس سالوں سے زیادہ تحریک دہشت گرد کے خلاف وہ ایک خوبصورت مزاحمت کی شکل میں دیکھی جارہی ہیں ادارہ اقوام متحدہ نے ان کو تازہ ترین عالمی اعزاز دے کر صرف پاکستان ہی کی نہیں پوری دنیا کے امن پسندوں کی عزت افزائی کی ہے۔ملالہ یوسف زئی عام انسانیت میں پائے جانے والی اس تصویرکو صحیح ثابت کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں کہ امن، ترقی اور مستقبل کی بہتری کے لئے ہر ملک کی آبادی کے زنانہ اور مردانہ طبقوں کا اتحاد اور اتفاق بہت ہی ضروری ہے اس اتحاد اور اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق یا تضاد دکھائی نہ دے اگر مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری سمجھی جاتی ہے تو عورتوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت بھی انتہائی ضروری ہے۔ مردوں اور عورتوں کو ہر لحاظ میں برابر سطح پر لانا ان کے اتحاد و اتفاق کے لئے بہت ضروری ہے۔ ملالہ یوسف زئی کی جدوجہد اپنے ملک کی زنانہ آبادی کی تعلیم کے شعبے میں مردوں کے برابر لانے کے بارے میں تھی اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہماری لڑکیوں اور خواتین میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا شوق بڑھ رہا ہے جو ہمارے بہتر مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔ملالہ یوسف زئی سے پہلے بھی پاکستان کی بے شمار خواتین نے تعلیم اور دیگر شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے کا مظاہرہ کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری زنانہ آبادی اپنے قومی اور انسانی فرائض سے بہت حد تک باخبر ہے۔ ہمارے تمام کے تمام قابل ذکر ثقافتی اور تہذیبی زندگی میں شاندار کارنامہ سرانجام دینے والے گھرانوں میں جھانکا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ گھرانے ایسی ’’مادرانہ‘‘ طرز کے گھرانوں سے ملتے جلتے ہیں جن کی سربراہی عام طور پر خواتین کے پاس ہوتی ہے اور وہ مائوں کے خلوص اور جذبے کے ساتھ تہذیب و ثقافت کی آبیاری کرتی ہیں۔خواتین کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی کا اضافہ کرنے کےلئے ضروری ہی نہیں لازم بھی ہے کہ ان کے لئے مناسب اور موزوں روزگار کے وسائل اور ذرائع میں اضافہ کیا جائے تاکہ تعلیم یافتہ خواتین کو روزگار کے حصول کے سلسلے میں ایک قابل قدر اعتماد بھی حاصل ہوسکے۔ ایک اندازے کے تحت بتایا گیا تھا کہ تعلیم کے اداروں اور دانش گاہوں کے شہر لاہور میں تعلیم حاصل کر کے روزگار پانے والی خواتین کا تناسب دس پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے اگرتناسب کی یہ تعداد دوگنی کی جائے تو قومی ترقی میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوسکتا ہے مگر یہ شاید صرف سوچا ہی جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان کی خواتین تعلیم اور دیگر معاملات اور شعبوں میں اپنی صلاحیتیںبرابر کر سکیں تو ملک کی ترقی کی رفتار میں اضافہ دوگنا سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے مگر پاکستان جیسی مردانہ سوسائٹی میں یہ ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر اہمیت دی جائے گی۔ ان مشکلات کے باوجود ہماری لڑکیاں اور خواتین اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان میں تعلیم حاصل کرنے سے لے کر پہاڑ سر کرنے، جنگی جہاز اڑانے اور دیگر انتہائی مشکل شعبوں میں اپنی جرات اور اہلیت دکھانے کی خواہش بڑھتی جارہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے تعلیمی اداروں میں خواتین اپنی بہتر کارکردگی سے پورے ملک کو متاثر کررہی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے تو پاکستان موجودہ صدی کے دوران خواتین اور مردوں کی برابری کا ناقابل یقین خواب پورا کر کے دکھا سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کی قدیم ہڑپہ تہذیب کی خواتین ساڑھے چار صدیاں پہلے تین رنگوں میں سوتی کپڑا دجلہ فرات کی تہذیب کے علاقوں میں درآمد کررہی تھیں جبکہ یورپ اور امریکہ کے لوگ غاروں میں زندگی گزار رہے تھے۔ ہمت اور کوشش کے سامنے کوئی مشکل حائل نہیں ہوسکتی۔



.
تازہ ترین