• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سوموٹو کے سنہری دور میں ہر شخص کو یقین تھا کہ سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، حامد سعید کاظمی اور سابق ڈی جی حج ، رائو شکیل انتہائی گناہ گار افراد ہیں جنہوںنے حج انتظامات تک کو نہ بخشا اور خیانت کے مرتکب ہوئے ۔ سوموٹو کیس نمبر 24(حج انتظامات میں بدعنوانی2010)کا آغاز اس اعلان سے ہوتا ہے ۔۔۔’’ سال 2010ء کے جج انتظامات میں بے پناہ بدعنوانی کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت کیس کا فوری اندراج کیا گیا ہے ‘‘۔ فیصلے کا پیراگراف نمبر 26کہتا ہے ۔۔۔’’یہ کیس اس عدالت میں کئی سال تک زیر ِ التوا رہا، اور سماعت کے دوران مندرجہ ذیل معاملات سامنے آئے (1) سیاسی افراد کے علاوہ اعلیٰ سرکاری افسران نے بھی بدعنوانی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے حجاج کو لوٹا گیا،نہ صرف یہ کہ اُن سے اضافی رقم وصول کی گئی بلکہ اُنہیں منیٰ میں رہائش بھی فراہم نہ کی گئی ۔ (2)حج سقم کیس کی تحقیقات کے دوران ایسے بہت سے افسران، جو سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی بدعنوانی کا ثبوت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، کو تحقیقات کے عمل سے الگ کرکے دیگر عہدوں پر ٹرانسفر کردیا گیا۔۔۔‘‘
36 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ بظاہر ایک افسوس ناک کہانی سناتا ہے کہ کس طرح ایگزیکٹو نے دبائو ڈال کر بدعنوانی کے اس کیس کی تحقیقات کو متاثرکیا۔ اگرسپریم کورٹ کو ہونے والی بدعنوانی کا یقین ہو اور وہ ملزم کی گرفتاری کا حکم دے تو وہ ملزم ماتحت عدالتوں سے کس طرح بری ہوسکتا ہے ؟جب دورا ن کیس سپریم کورٹ میں زیر ِ التوا تھااور عدالت کے کمرہ نمبر 1سے آنے والی آوازیں میڈیا کی ہیڈلائنز بن رہی تھیں(گویا بیک وقت میڈیا ٹرائل بھی ہورہا تھا)توا سپیشل جج سینٹرل (اسلام آباد) نے حامد کاظمی کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اُن کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’دستیاب مواد کی گہری جانچ پڑتال کے بغیر فی الحال یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کیس میں سابق ڈی جی رائو شکیل اور احمد فیاض شفیع کے ملوث ہونے کو خارج ازا مکان قرار نہیں دیا جاسکتا ، اور ان کی تقرری ضمانت کے درخواست دہندہ ( کاظمی) نے کی تھی۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میں کسی ثبوت کی بات نہیں کررہا، لیکن یہ مسودات اور انکوائری رپورٹس درخواست دہندہ کا جرم سے تعلق واضح کرتے ہیں، چنانچہ اس مرحلے پر فی الحال اُن کی ضمانت کی درخواست منظور نہیں کی جاسکتی ۔ ‘‘
تین جون 2016ء کوا سپیشل جج سینٹرل نے کاظمی اور رائو شکیل پر فرد ِ جرم عائد کردی، اور اُنہیں جیل بھیج دیااور کئی ملین روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ،جس نے بیس مارچ 2017ء کو سزا معطل کرتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم دیا۔ 66 صفحات پر مشتمل جناب جسٹس محسن کیانی کا فیصلہ پیش کردہ ثبوت کا سیر حاصل تجزیہ کرتا ہے ۔ اس کارروائی کے دوران یہ تجزیہ اس بات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے کہ ہمارے جسٹس سسٹم میں تحقیقات اور استغاثہ کی فعالیت میں کیا خرابیاں ہیں، اور کس طرح میڈیا ٹرائل سے قائم ہونے والا تاثر حقائق کی جگہ لے لیتا ہے ۔
قانون ِ شہادت کی ضروریات پر بات کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کہتی ہے ۔۔۔’’ تمام دستاویزی شہادت ناقابل ِ قبول ہیں ، چنانچہ کسی کو سزا دینے کے لئے اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔ تحقیقاتی آفیسر نے تسلیم کیا کہ وہ ایسے کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے جن کی بنیاد پر وہ جرم ثابت کرتے ۔۔۔۔ دلیل دیتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ملزمان نے کوئی کک بیک یا کمیشن وصول کیا تھا تو اُسے برآمد کیوں نہیں کیا جاسکا، یا اُن ذرائع کا کھوج کیوں نہ لگایا جاسکا جن کے ذریعے رقم کہیں منتقل کی گئی تھی؟‘‘فاضل عدالت نوٹ کرتی ہے ۔۔۔’’تفتیشی افسران نے حکومت ِ پاکستان کا وقت، پیسہ اور وسائل ضائع کیے ، اور جرم کا ثبوت ڈھونڈنے میںناکام رہے ۔ ‘‘ عدالت کے خیال میں اس کیس میں غلط کاری یہ تھی کہ 2010ء میں کرائے پر حاصل کی گئی عمارتیں حرم شریف سے اُس سے زیادہ فاصلے پر تھیںجس کی وضاحت جج پالیسی میں کی گئی ہے ۔ تاہم ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ملزمان نے اس سے کوئی مالی مفاد حاصل کیا ، کک بیک وصول کی ، یا اپنے اعلانیہ وسائل سے بڑھ کر اثاثے بنائے ہوں۔ ہاںاس میں کوتاہی اور بدانتظامی تو ہوسکتی ہے لیکن یہ کوئی مجرمانہ قانون شکنی نہیں۔
آئیے ذرا کچھ بنیادی اصولوں کی بات کرلیں۔آئین کاآرٹیکل 9اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ ’’کسی شخص کو قانونی طریق کار اختیار کیے بغیر زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔‘‘آرٹیکل 10A کہتا ہے ۔۔۔’’ شہری حقوق اورذمہ داریوں کا تعین کرتے ، یا کسی شخص پر کوئی الزام لگاتے ہوئے اسے فیئرٹرائل کا حق دیا جائے گا۔ آرٹیکل 14 دعویٰ کرتا ہے ۔۔۔ ’’انسانی وقار اور گھرکی حرمت کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔نیز ثبوت حاصل کرنے کے لئے کسی شخص کو بھی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ ‘‘کیا ہم نے پاکستان میں ان بنیادی انسانی حقوق کو بے معنی نہیں بنا رکھا ؟
سپریم کورٹ میں کئی سالوں سے زیر ِ التو ااپیلوں کو نمٹانے کے لئے جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل یک رکنی کمیشن کام کررہا ہے ۔ جب پرانے کیسز کو نمٹایا جارہا ہے تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب وہ لوگ بھی بری ہورہے ہیں جو کئی سال، بلکہ کئی عشرے جیلوں میں گزار چکے تھے ۔ ریاست یا معاشرہ ان افراد کی سلب کی گئی آزادی کی تلافی کس طرح کرے گا؟اگر سپریم کورٹ حامد کاظمی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو کیا اُن کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہوجائے گی؟کیا وہ اپنے شخصی وقار کے چٹخنے والے آبگینے کو جوڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟دراصل ہم گرفتاری کو سزا کا متبادل قرار دے کر یہ طے کرچکے ہیں کہ کریمنل جسٹس کا مقصد ہر ملزم کو جیل میں بند کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں صرف پولیس کو ہی مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ ہماری ریاست میں گرفتاری کو مخالفین کو نیچا دکھانے اور خائف کرنے کے ایک حربے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس صورت میں پولیس اور تفتیشی افسران کسی طاقت ور شخص کے ’’سہولت کار‘‘ کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ حقیقی تفتیش ایک محنت طلب کام ہے ، گرفتاری میں کوئی مشقت نہیں اٹھانی پڑتی۔ چنانچہ کسی تفتیش کی غیر موجودگی میں گرفتاری ہی کارکردگی کی پراکسی بن جاتی ہے ۔حتیٰ کہ عدالتیںبھی کہتی سنائی دیتی ہیںکہ ملزم کو ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟دراصل ہم سب اسی پراکسی کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیںکیونکہ یہ ہمیں جانفشانی سے بچا لیتی ہے ۔ Criminal Procedure Code کا سیکشن 54 پولیس کو وسیع اختیارات دیتا ہے کہ وہ قابل ِ مواخذہ جرم میں ملوث کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار کرسکتی ہے ۔ اس کے پیچھے منطق کا جائزہ لیں ۔ پولیس کسی جرم میں ملوث ہونے کے شبے میں ملزم کو گرفتار کیوں کرتی ہے ، جبکہ قانون اُسے جرم ثابت ہونے تک بے گناہ تسلیم کرتا ہے ؟گرفتاری کا صرف ایک جواز ہوسکتا ہے کہ کہیں وہ فرار نہ ہوجائے ، لیکن اگر یہ خدشہ نہیں ہے تو تفتیش کے لئے اُسے گرفتار کرنے میں کیا منطق ہے ؟کیا پولیس کے طلب کرنے پر وہ شخص پیش نہیں ہوگا؟اس وقت ہماری جیلیں ایسے افراد سے بھری ہوئی ہیں جنہیں گرفتار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہ پالیسی اُسی وقت ہی تبدیل ہوگی جب ہم گرفتاری کو سزا کا متبادل سمجھنا چھوڑ دیں اور حقیقی تفتیش کی راہ اختیار کریں۔ لیکن یہ راہ مشکل ہے۔



.
تازہ ترین