• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم ہائو س کے اسٹاف کو چار ماہ کی تنخواہ کے مساوی ’’بونس‘‘ دیا گیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کیونکہ عام طور پر بونس اور تنخواہوں میں اضافے کے پیکج مالی سال کے اختتام پر دیئے جاتے ہیں۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ شاید وزیراعظم نواز شریف پریشان ہیں کہ پاناما کیس کا فیصلہ اُنہیں کسی بھی وقت عہدے سے ہٹا سکتا ہے، چنانچہ وہ اپنے رسمی معاملات نمٹارہے ہیں۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے ایک جج صاحب کے ایک تعجب خیز بیان… ’’اس کیس کا فیصلہ تاریخی ہوگا اور اسے عشروں تک یاد رکھا جائے گا‘‘ نے بھی ’’گو نواز گو‘‘ بریگیڈ کے بادبان میں ہوا بھردی ہے۔ جیسا کہ ناقدین کے خیال کی تصدیق کر دی ہو، پی ایم ایل (ن) حکومت نے انتخابات کی تیاری کو ٹاپ گیئر لگاتے ہوئے کئی ایک ووٹر ز فرینڈلی اقدامات کا اعلان کردیا۔ سرکاری ملازمتوں پر لگی پابندی اٹھالی گئی، اور پچاس ہزار سے زائد سرکاری ملازموں کو ’’پکا‘‘ کر دیا گیا۔ اب، خاص طور پر اہم سیاسی حلقوں میں، بے گھر افراد کیلئے رہائشی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، نئے گیس کنکشن پر عائد پابندی ہٹالی گئی ہے، نرم حج پالیسی کا اعلان کیا گیا، نیز اس کے ساتھ ساتھ دور افتادہ علاقوں میں مسٹر شریف نے مسلسل دورے کئے او ر اپنی حکومت کے ’’بہترین ترقیاتی منصوبوں‘‘ کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم ایل (ن) نے مخالفین کے دھرنوں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کے باوجود یہ کام کردکھائے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مسٹر شریف شیر پر سوار ہیں(محاورے کے مطابق)، اور کوئی مبینہ باگ ہاتھ میں نہیں۔ وہ اپنے اس موجودہ دور میں کم از کم دومرتبہ بال بال بچے ہیں۔ دھرنے اور ’’تھینک یو راحیل شریف ‘‘مہم تنی ہوئی رسی پر چلنے والی آزمائش تھی۔ موجودہ پاناما انکشافات اُن کیلئے حقیقی بلائے ناگہانی ہیں۔ حاصل ہونیوالے سکون کے لمحات میں انھوںنے قلب کی جراحت بھی کرائی،نیز صحت کے کچھ دیگر مسائل سے بھی دو دو ہاتھ کئے۔ اس دوران ’’گم شدہ سیاسی کارکنوں‘‘، بھارت اور افغانستان کیساتھ کشیدہ ہوتے ہوئے تعلقات، توانائی کا بحران، سول ملٹر ی تنائو، دہشت گردی اور عدلیہ کی طرف سے سولین حکومت کے پر کترنے کی پیہم کوششیں بھی دامن گیر رہیں۔ تاہم ان پرسب سے کاری گھائو یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی طرف سے معاشی شرح ِ نمو میں پانچ فیصد اضافے کو سراہے جانے کے باوجود بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ پاکستانی معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجارہا ہے۔ اس کی وجہ سے روپے کی قدر کم، شرح سود زیادہ اور افراط ِ زر اور مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
پاناما کیس کا فیصلہ نواز شریف کے مستقبل کا تعین کرسکتا ہے، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے عام انتخابات زیادہ منظم اور غیر متنازع ہوں گے۔اور ان کی وجہ سے ملک عدم استحکام اور افراتفری کا شکار ہوسکتاہے۔ چار سال تک جاری رہنے والے جوڈیشل کمیشن اور انتخابی اصلاحات پرہونیوالے مذاکرات کے باوجود سیاسی جماعتیںکسی بامعانی نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں۔ آخری چارے کے طور پر کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی، جسے بل تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا، پی ٹی آئی کی طرف سے اٹھائے گئے درجنوں اعتراضات کو سلجھانے میں ناکام رہی ہے۔ درحقیقت ایک مرحلے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پی ٹی آئی نے اس قدر ہراساں کیا کہ وہ کمیٹی سے نکل گیا اور پارٹی پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کی دھمکی دی۔ یہ مسلہ اسلئے کھڑا ہوا کیونکہ پی ٹی آئی نہ صرف ’’شفاف اور منصفانہ انتخابات‘‘ کے انعقاد کیلئے قانون کو تبدیل کرانے کیلئے دبائو ڈال رہی ہے بلکہ اس کی کوشش یہ بھی ہے کہ نتائج کا جھکائو اُس کی طرف ہو۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نگراں حکومتوں کی منظوری ایک پارلیمانی کمیٹی دے جس میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں موجود سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو۔ دوسری طرف موجودہ قانون کے مطابق صرف حکومت اور مرکزی اپوزیشن پارٹی کوہی ان کی منظوری دینی ہوتی ہے۔ بظاہر پی ٹی آئی کے اس مطالبے میںکوئی قباحت نہیں، لیکن وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی فنڈنگ اور وسائل کی بابت قوانین اور پابندیوں کو ختم کردے کیونکہ پی ٹی آئی کی اصل فنڈنگ بیرونی ممالک سے آتی ہے، اور چونکہ اس میں شفافیت کا فقدان ہوتا ہے، اس لئے اسے الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا گیاہے۔
اسی طرح پی ٹی آئی کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے پر اصرار بھی درست نہیں، کیونکہ زیادہ تر مقامی اور غیر ملکی ماہرین کے نزدیک انہیں عام انتخابات میں براہ راست استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہی مسئلہ عمران خان کے ڈالے گئے ووٹوں کے بائیومیٹرک ٹیسٹ کے مطالبے کیساتھ بھی ہے کہ ہر ووٹ کاسٹ کرنے والے کا موقع پر ہی بائیومیٹرک ٹیسٹ کیا جائے۔ ان کایہ بھی مطالبہ ہے کہ انتخابات میں پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر، فوج کا زیادہ فعال کردار ہو۔ یہی کچھ وہ ترقی کے تازہ منصوبوں کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ یہ درحقیقت ’’قبل از الیکشن دی جانے والی رشوت ‘‘ ہیں۔ اُن کا ایک اور مطالبہ کہ رنراپ رہنے والے امیدواروں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جائے، انتخابی نتائج کو غیر ضروری طور پر لیٹ کرانے کا باعث بنے گا، اور اس کے نتیجے میں تنازعات جنم لیں گے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عدم اتفاق ِرائے پر پریشانی قابلِ فہم ہے۔ اور جیسا کہ انگریز شاعر، ٹی ایس ایلیٹ نے اپریل کو ’ظالم ترین مہینہ‘ قرار دیا تھا،اس مہینے میں ’’یادداشت اور خواہش‘‘ کا ظالمانہ امتزاج نواز شریف کے بھی دامن گیر ہے۔


.
تازہ ترین