• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں پاناما کا فیصلہ آئے یا نہ آئے، بہرحال ماہ جون کے پہلے ہفتے میں نئے مالی سال کے بجٹ کا اعلان متوقع ہے جس کے لئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی قیادت میں پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد امریکہ جانے کے لئے تیار ہے جہاں نئے مالی سال کے بجٹ کی گائیڈ لائن اور عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے حوالے سے کئی اقدامات اور تجاویز پر غور کیا جائے گا تاہم وہاں بات چیت جو بھی ہو، اس کا نہ تو ماضی میں عوام کو کوئی خاص فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی ہم ان مجوزہ اصلاحات پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کر کے منصفانہ ٹیکس سسٹم کا اجرا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی ڈسپلن اور معاشی انصاف کی اصلاحات تو ہمارے ممبران پارلیمنٹ اور حکمرانوں کو کبھی پسند نہیں رہیں۔ آج کے کالم میں ان موضوعات سے ہٹ کر عام شہریوں خاص کر بزرگ شہریوں کے ان معاشی اور سماجی امور پر بات کی جائے گی جن میں سے کچھ کا ذکر ہر وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں رسمی طور پر ہوتا ہے مگر اسکے برعکس معاشرے میں ہر دور کی غیرمناسب اور غیرمنصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں لیکن جب اس بارے میں کسی بھی پارٹی کے سربراہ یا دیگررہنمائوں کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ بزرگ شہریوں کا سب سے زیادہ احساس ان ہی کو ہے۔ اس حوالے سے جن مسائل کی نشاندہی کی جا رہی ہے وہ وزارت خزانہ اور خاص کر وزارت داخلہ، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور اسٹیٹ بینک سے ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بزرگ شہریوں خاص کر سینئر سیٹزن کو معاشرے میں ہر طرح کے معاشی اور سماجی تحفظات دیئے جاتے ہیں اسلئے کہ ان ممالک میں 60سال سے اوپر کے افراد کی بڑی تعداد کو قوم اور نظام کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے کہ اب ان کی صلاحیتوں کے نکھار کا وقت آ گیا ہے۔ ہمارے ہاں 60سال سے اوپر کے لوگوں کو ’’بیکار‘‘ سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ روش بدلنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے وزارت خزانہ کو اپنے وزرا اور پارلیمنٹ کے لئے مختص اخراجات کا ایک بڑا حصہ بزرگ شہریوں کو پنشن اور صحت سمیت دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے مختص کرنا ہو گا۔ اس وقت پنشنرز کی اکثریت کی تعداد چند ہزار روپے ماہانہ پنشن لے رہی ہے اور بعض اداروں کے ملازمین ایسے ہیں کہ جن کی پنشن کے بارے میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ انہیں کئی کئی لاکھ روپے کی پنشن کے بعد یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ وہ کہاں خرچ کریں جبکہ عام ملازمین بالخصوص نجی اداروں کے ملازمین کا بہت برا حال ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اگر اپنے ووٹ بنک میں اضافہ کرنا ہے تو پھر اس طرف ضرور توجہ دے۔ اس لئے کہ یوتھ کا ووٹ تو کوئی مانے یا نہ مانے، تقسیم ہو چکا ہے۔ وہ حکومت مخالف زیادہ نظر آتے ہیں۔ دوسرا بڑا اور اہم مسئلہ وزارت داخلہ اور پی ٹی اے سے تعلق رکھتا ہے جس پر تھوڑی سی توجہ دینے سے وزیر داخلہ اور دوسرے حکام کو ثواب بھی مل سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ٹیلی فون کمپنیوں کے صارفین کی تعداد میں 40فیصد سے زائد افراد کی تعداد ان کی ہے جو 60سال کی عمر سے زیادہ ہیں جن کو آئے دن سم کی تجدید کرانے یا نئی سم لینے کے لئے انگوٹھے کے نشان دینے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔ بزرگ افراد کی اکثریت کے یہ نشان مٹ چکے ہوتے ہیں۔ موبائل کمپنیاں عملاً ان شہریوں کو بار بار بلا کر ہر طرح پریشان کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی اے حکام کو پہلے بھی یہ تجویز دی گئی تھی کہ اس سلسلے میں کسی علیحدہ فارم پر اُن سے دستخط کرا لئے جائیں اور انہیں پہلے سے موجود CNICکی روشنی میں ٹیلی فون سم حاصل کرنے کی سہولت دیدی جائے۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا اب تمام بینکوں میں نئے اکائونٹ کھلوانے سے لے کر کسی پے آرڈر یا کسی اور کام کے وقت کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہاں بھی CNICکی روشنی میں کسی حلفیہ فارم پر دستخط کرا لئے جائیں تو اس سے جو پریشانی بزرگ شہریوں کو جگہ جگہ اٹھانی پڑتی ہے اس سے ان کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا روایتی نظام ہر کسی کو بلا سوچے سمجھے ممکنہ دہشت گرد یا سہولت کار بنانے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ اس نظام کو موثر بنانے کے لئے گورننس کے حوالے سے دیگر اقدامات تو ضرور کئے جائیں مگر خدارا بزرگ شہریوں پر تو رحم کیا جائے۔ یہ سب معاملات حکمراں جماعت کے لئے ایک چیلنج ہیں جن کو حل کرنے سے پاکستان میں بڑی تیزی سے 60سال کی حد کراس کرنے والوں کی ہمدردیاں اور سپورٹ انہیں مل سکتی ہے۔



.
تازہ ترین