• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اعلان کیا گیا تھا کہ 2016ء پاکستان سے ہر قسم کی دہشت گردی کے اختتام کا سال ہوگا۔ اس کے جواب میں دہشت گردوں نے کوئٹہ اور مردان میں پے درپے خوفناک حملے کئے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ایک سال قبل آرمی پبلک اسکول ، پشاور پر ہونے والے حملے کا ہی تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو بتاتے رہے تھے کہ اے پی ایس پر خون منجمد کردینے والے حملے کے بعد اب ہم ایک مختلف قوم ہیں ، بچوں کی اس سفاکانہ طریقے سے ہلاکت نے ہمیںہمیشہ کے لئے بدل دیا ہے۔ اب اگر باچا خان یونیورسٹی پر حملے نے ہمیں جگایا ہے تو اس کا مطلب ہے ہم تبدیل ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ہرحملے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے جیالے ناقابل ِ یقین طریقے سے ایسے عارضی اور مبہم رد ِعمل دیتے ہیں جس میں دہشت گردی کی اصل وجوہ سے انکار کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ جس دوران باچا خان یونیورسٹی حملے کی زد میں تھی اور دہشت گردوںسے مقابلہ جاری تھا، ہمارے ہاں دہشت گردوں کے حامیوں نے سوشل میڈیا کو سازش کی ایسی تھیوریوںسے تعفن زدہ کردیا تھا جب ہم 2014ء کے آغاز سے پہلے سنا کرتے تھے اورجن میں ہمارے کانوں میں یہ دانائی انڈیلی جاتی تھی کہ تحریک ِطالبان والے دراصل ہمارے ’’بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ ہیں جنہیں افغانستان میں موجودبھارتی ایجنٹ برین واش کرکے ہمارے خلاف لڑا رہے ہیں۔ مت سوچیں کہ اے پی ایس حملے نے ایسی سازش کی تھیوریوں کو دفن اور تھیوری سازوں کی زبانوں کو خاموش کردیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ہمیں بطور قوم متحد رہنا چاہئے، چنانچہ ’’قومی اتفاق ِرائے‘‘حاصل کرنے کے لئے مشاورت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔درست ، لیکن قومی اتحاد سے مراد کیا لی جاتی ہے؟کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم یہ ہرگز سوال نہ اٹھائیں کہ قومی سلامتی کی پالیسی ، جس نے پچاس ہزار جانوں کا نقصان کردیا، کا خالق کون ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم اس سوال کو زبان پر نہ لائیں کہ کیا ریاست دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری توانائیاں بروئے کار لا رہی ہے یا نہیں؟ کیا قومی اتفاق کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ریاست کی یہ بات مان لیں کہ دہشت گرد جنگ ہارجبکہ ہم جیت رہے ہیں ، اور یہ کہ یہ حملہ ’’بھاگتے ہوئے دہشت گردوں‘‘ نے کیا ہے؟کیا اتحاد کا مظاہرہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنی ریاست کی دہشت گردی کے خلاف اپنائی جانے والی اسٹرٹیجی پر سوال نہ اٹھائیں؟کیا حب الوطنی کا تقاضا حملے کے بعد اپنے محاسبے سے گریز کرنا دوسروں کو مورد ِالزام ٹھہرانا ہے؟
اے پی ایس کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ دہشت گرد اس لئے کامیاب جارہے ہیں کیونکہ ہمارا عدالتی نظام کمزور اور بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ اگر ہم نے دہشت گردوں کو کچلنا ہے توہمیں فوجی عدالتیں قائم کرنا پڑیں گی تاکہ دہشت گردوں کو پھانسی دے کر ڈیٹرنس قائم کیا جائے۔ اس سے دہشت گردی کی طرف مائل ہونے والے خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ جائیںگے۔ چنددنوں کے اندر اندر ہمارے منتخب شدہ نمائندوںنے اکیسویں ترمیم منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کی اجازت دے دی۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان حالت ِ جنگ میں ہے ، اس لئے غیر معمولی وقت، غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے، چنانچہ بنیادی حقوق کی پروا کرنے والوں کو اپنا بستر گول کرلینا چاہئے۔ اس کے بعد ریاست نے سزائے موت پر عائد پابندی کو اٹھا لیا، اورقوم نے دہشت گردوں کو ملنے والی پھانسیوں پر طمانیت کا اظہار کرنا شروع کردیا ۔ انٹر نیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے مطابق 2015ء میں فوجی عدالتوں میں 64 مشتبہ افراد کو پیش کیا گیا، ان میں چالیس قصور وار ثابت ہوئے ، جن میں سے چھتیس کو سزائے موت سنادی گئی۔ ان میں سے اب تک آٹھ کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
کیا اب سوال اٹھانے کی اجازت ہے کہ فوجی عدالتیں اور ان کی طرف سے کیا جانے والا فوری انصاف اور سزائے موت خود کش حملوں کو خوفزدہ کرنے میں کیوں ناکام رہی ہیں؟کیا یہ انتہائی رومانوی تصور نہیں کہ برین واش کیا ہوا ایک لڑکا ، جو مرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے، اُسے سزائے موت سے ڈرایا جائے؟کیا ہم نہیں جانتے کہ اُسے جنت میں جانے کے لئے موت کے راستے پر گامزن کیا گیا ہے؟ اُسے فوجی عدالتوں اور پھانسیوں کا کیا ڈر ہوسکتا ہے؟اس کے باوجود بہت سے بقراط یہ دانائی ہماری قوم کے ذہن میں اتار رہے تھے کہ اب دہشت گردوں کا قلع قمع ہونے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔
اب تک ہمیں سمجھ آچکی ہوگی کہ فوجی عدالتیں دہشت گردی کانہ علاج پہلے کر سکی تھیں، نہ آئندہ کرسکیں گی۔ جب تک نظریاتی ہتھیاروں کی سپلائی کا سلسلہ نہیں روکا جاتا، آپ عسکری ہتھیاروںسے دہشت گردوں کو نہیں ڈرا سکتے۔ اس حقیقت کی تفہیم کوئی راکٹ سائنس نہیںکہ انتہا پسند وں کے نظریات ہی دہشت گردی کا اصل سبب ہیں۔ ہم دہشت گردی کے لئے تیار کی گئی زرخیز نرسری کو ختم کرنے کے لئے یا تو تیار نہیں، یاا س کا حوصلہ نہیں پاتے،لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کوئی معجزہ رونما ہو اور بیٹھے بٹھائے یہ مصیبت سر سے ٹل جائے۔ اس کے بعد ہمارے رہنما اس صدی میں چوتھی یا پانچویں جنریشن کی جنگوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس وقت روایتی جنگوں کی بجائے غیر ریاستی عناصر ریاستوںکے لئے اصل خطرہ بن چکے ہیں۔ ہمارے وزیر ِا عظم کا کہنا ہے ……’’دہشت گرد بھاگ رہے ہیں، وہ بھاگتے ہوئے آسان اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں‘‘۔ جب 2007ء میں دہشت گردوں نے میریٹ ہوٹل اسلام آباد کو نشانہ بنایا، یا 2012 ء میں ملالہ یوسف زئی پر فائرنگ کی یا اسکولوں اور پولیو کارکنوں پر حملہ کیے تو کیا وہ ’’ساکن‘‘ تھے؟کیا اُنھوں نے مشکل اہداف کا چنائو کیا؟
ہم کس قسم کی ذہنی الجھن کا شکار ہیں؟ غیر ریاستی عناصر ہماری ریاست اور شہریوں پر حملہ آور ہیں۔ اس عالم میں نرم یا مشکل اہدا ف کا چنائو کرنے کی بحث بے معانی ہے۔ یہاں صرف ٹی ٹی پی ہی نہیں، لشکر ِ جھنگوی، جیش محمد اور بہت سی انتہا پسندتنظیمیںسرگرمِ عمل ہیں۔ ان تنظیموں کے لئے کوئی سیاسی مقاصد نہیں،یہ نظریات کی جنگ ہے۔ جس طرح الشہاب نیروبی میں شہریوں کو ہلاک کرتی ہےاور بوکو حرام لڑکوں اور لڑکیوں کو ہلاک کرتی ہے۔ چنانچہ اگر محترم وزیر ِاعظم ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ یہ دہشت گردوں کی طرف سے سویلین پر آخری حملہ تھاکیونکہ ایک یونیورسٹی پرحملہ دہشت گردوں کی ختم ہوتی ہوئی سکت کو ظاہر کرتا ہے تو جناب آپ کے لئے اچھی خبر نہیں۔ آپ اس وقت ایک مشکل صورت ِحال کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ ہمیں اس قسم کے مزید سانحات سے بھی گزرنا پڑے گا، لیکن اگر ہم نے اپنی فکری الجھن دور نہ کی تو شاید ہم یہ جنگ کبھی نہ جیت پائیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو اتنی زیادہ انتہا پسند تنظیمیں ہیں اُن کی سوچ کو ن بدلے گا؟ کیا یہ تنظیمیں رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال کر امن پسند شہری بن جائیں گی؟ایسا نہیں ہوگا، بلکہ یہی گروہ داعش کے ساتھ مل کر مزید خون کی ہولی کھیلنے کی تیار ی کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان کے شہریوںکے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ غیر ریاستی عناصر کے درمیان اچھے اور برے کی تمیز ختم کی جائے۔ انہیں راہ ِ راست پرلانے کی نہیں، ان کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین