• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’اس ملک میں اظہار رائے پر جو صحیح بیان کرے اس پر پابندی ہے، یہ زبان کاٹتے ہیں لوگوں کی، ہم کہتے ہیں کہ مار بھی دیا اور الزام بھی ایسا لگایا کہ میں خود اس کا باپ ہوں میرے سامنے وہ پلا بڑھا، وہ ہمارا بہت احترام کرتا تھا اور ہمیں اکثر حضرت محمدﷺ کا پیغام دیتا تھا، وہ جرنلزم کا طالب علم تھا زیادہ تر حضرت عمرؓ کے انصاف کے نظام کا حوالہ دیتا تھا، اور اسی حوالے سے میں درخواست گزار ہوں بغیر کسی ایک ذات کے، میں اپنے پیارے وطن، پاک سے ریاست سے انصاف چاہتا ہوں اور انصاف بھی اس لئےچاہتا ہوں کہ کل دوسروں کے بچوں کے ساتھ یہ واقعات نہ ہو جائیں‘‘ گلو گیر اور بھرائی مگر ایک مضبوط آواز سےباپ اپنے بیٹے کے تشدد زدہ ننگے لاشے کو کفن سے ڈھانپئے لحد میں اتار کر میڈیا سے گفتگو میں حکمرانوں سے انصاف کی اپیل کر رہا تھا، وہ کہہ رہاتھا کہ یہ اکیلے اس کے بیٹے کا مسئلہ نہیں ہے ادھر یہ مسئلہ ہےکہ کچھ لوگوں نے یونیورسٹی میں آکر حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے لہٰذا حکومت خود اپنی رٹ کا سوال پوچھے کہ یہ کیا ہوا ہے اور انصاف کرے، اس سوال پر کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو انصاف ملےگا؟ تو ایک لمحہ سوچے بغیر بے اختیار بولا، ’’میں تو جب اس سسٹم کا تجزیہ کرتا ہوں تو کبھی ایسا ہوا نہیں ہم غریب لوگوں کے لئے قانون ایسی چیز ہے جو امرا کے لئے ایک اور چیز ہے اور غریبوں کے لئے ایک دوسری چیز۔ آپ خود سمجھدار ہیں‘‘
جوان سال اور نہتے اکلوتے بیٹے کی جگہ جگہ سے کٹی پھٹی لاش کو آغوش میں لینے والے اس ’’سفاک‘‘ باپ نے سوچا نہیں کہ وہ کس شان و شوکت سے محفوظ محلات میں رہنے والے ’’اوللعزم‘‘ اور عوام کے دکھ درد سے ’’سرشار‘‘ منتخب نمائندوں سے انصاف مانگ رہا ہے، وہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کی بات کر رہا ہے جہاں اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کے ’’عظیم‘‘ اور ’’مخلص حکمرانوں‘‘ سے ان کے عوام کےمفاد میں ہر قسم کے ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں کوئی سوال تک کی جرات نہیں کرسکتا۔ اپنی بوڑھی کمر کا واحد سہارا کھونے کے بعد بھی اس بزرگ نے کچھ نہیں سیکھا کہ وہ سرعام انصاف کا سوال اٹھا رہا ہے، شاید اس کو اللہ کا ذرا خوف نہیں...!
اس احساس سے ’’عاری‘‘ اور ناتواں کندھے والے باپ کو کاش جاکر کوئی بتائے، کہ یونیورسٹی میں اپنے بچوں کا بھیجنے کا واحد مقصد علم وشعور کا حصول یا آگاہی نہیں، بلکہ ہر جائز و ناجائز، غلط یا فراڈ کے طور طریقوں سے ڈگری کا حصول اور پڑھنا نہیں سرکاری نوکری کے ٹھنڈے کمروں میں مزے لوٹنا بھی ہے، کوئی ’’معزز‘‘ حکمرانوں سے سوال اٹھانے والے خاندان کےواحد کفیل کو بتائے کہ ارکان پارلیمنٹ نے اس کے بیٹے کی مغفرت کے لئے ایوان میں دعا کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔
ملک کے وزیراعظم (فادر آف دی نیشن) نے بھی تین چار دن کےگہرے صدمے سے نکلنے کے بعد سخت مذمتی پیغام جاری کر دیا ہے بلکہ قوم کو تاکید کی ہے کہ وہ اس عمل کی سخت ترین مذمت کریں، واقعہ کے وقت چند سو کلومیٹر دوری پر اپنے پرشکوہ سرکاری گھر میں موجود، صوبے کے صاحب بہادر وزیراعلیٰ نے بھی موقع پر پہنچنے کی بجائے ’’قصہ تمام‘‘ ہونے کے بعد زبانی کف افسوس مل دیا ہے، کون بتائے اس لاچار بوڑھے کو کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی مساجد سے ایک انسان کو ازخود سزا دینے کے عمل کو انسانیت کا قتل قرار دینے کی خاموش صدائیں بلند ہو رہی ہیں، تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کےمضبوط بدن و قوت ارادی والے رہنما ’’بے آواز‘‘ ہو کر اس عمل کو ’’برا بھلا‘‘ کہہ رہے ہیں۔ انصاف کے بھکاری کو کیسے سمجھایا جائے کہ فیصلوں کو مکمل محفوظ کرنے والی اعلیٰ ترین عدالتوں کے قاضی نے اخباری تراشے پر ’’سوموٹو‘‘ لے لیا ہے، داد رسی کے لئے پکارنے والے کو اب مزید حکومتی سنجیدگی اور داد رسی کا کیا ثبوت چاہئے کہ ہر دم اور شدت سے تبدیلی کےخواہش مند بڑے خان صاحب کے دو عظیم کارنامے اور دعوے کی حقیقت کا روپ دھار کر تاریخ کے اوراق میں سچ کے طور پر رقم ہو گئے ہیں، ایک تعلیم کا اعلیٰ و ارفع نظام اور دوسرا غیر سیاسی، فرض شناس اور عوام کے تحفظ کےجذبے سے سرشار پولیس...؟ عملی مظاہرہ کےطور پر عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ، اساتذہ، موقع پر موجود سیکورٹی حکام اور پولیس نے نظم وضبط کےقیام اور حفاظت کے حوالے سے اپنی ’’فرض شناسی‘‘ کی انتہاء اور مثال قائم کر دی، جی ہاں خان صاحب تبدیلی آگئی ہے؟ کاش کہ غم سے نڈھال اس بے بس ماں کو بتائے جو کہہ رہی تھی کہ اپنے لال کے ہاتھ چومنے لگی تو اس کا ہاتھ اور سب انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، درد شدت سے کلیجہ پھٹ گیا کہ محض اتفاق سے چند روز پہلے ہی وزیراعظم نے جذبہ ایمانی سے پیغام جاری کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد بالخصوص توہین ناموس رسالت کے مرتکب افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، تو کیا اس جرم کا تعین کرنے اور قرار واقعی سزا کا نظام بنا دیا گیا ہے؟ یہ بھی اتفاق ہے کہ چند روز پہلے ملک کے بڑے تعلیمی اداروں پنجاب یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی میں محض ثقافتی پروگرامز کو بزور طاقت ناکام بنایا گیا، کیا متعلقہ حکومتوں نے راست قدم کیا اور نامعلوم افراد کےخلاف کوئی کارروائی کی؟
یہ سب واقعات اور حقیقتیں ایک امتحان کی صورت اختیار کر چکی ہیں، زمین ہمارے پاوں تلے سے کھسکتی جا رہی ہے لیکن ہماری توجہ کہیں اور سمت کچھ اور ہے، روز مرنے اور مر مر کر زندہ رہنے والے جاننے کو بے چین و بیقرار ہیں کہ آخر آپ کب تک لوگوں کے بے گور و کفن لاشوں پر کرسی کو مضبوط کرنے کی خاطر مصلحت اور مفاہمت پسندی کی ’’سیاست‘‘ کرتے رہیں گے؟ کب تک اپ اقتدار کو دوام دینے کے لئے کمزور سہاروں کو اپنی ضرورت بنائے رکھیں گے، کب تک آپ آزادی و خود مختاری کو اپنی ذات تک محدود رکھیں گے؟ کب تک آپ جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ کر مشکل اور بڑے فیصلوں سے اجتناب کریں گے؟ ہر واقعہ کو محض معمول کا سانحہ قرار دے کر بھلانے کی روایت کو کب ترک کریں گے؟ اپنے ہی بنائے ہوئے نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کی سوچ پیدا کرنے والوں کےخلاف کب ایکشن لیں گے؟ متبادل بیانیہ دینا تو دور کی بات کم ازکم اس پر سوچنے اور بات کرنے کا آغاز کب کریں گے؟ یاد رکھیئے یہ وہی اعلیٰ و ارفع مذہب اسلام ہے جس میں غصہ حرام ہے اور ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے، یہ صبر، برداشت اور تحمل کا وہ دین ہے جو جبر، بربریت و فساد کے خاتمے کے لئے آیا، جی ہاں جس میں رسولﷺ کے ساتھی رسولؐ کی بات نہ ماننے پر کسی کو تکلیف دیتےہیں نہ گردن زنی کرتےہیں، پیغمبر خداﷺ اپنے پر کوڑا پھینکنے والی کی بیمار پرسی کرتے ہیں، طائف میں پتھروں کی بارش کرنے والوں پر عذاب کی بجائے مغفرت اور ہدایت کی دعا مانگتے ہیں، حضرت عمرؓ فرماتےہیں کہ جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں کے بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں۔ خدارا خود سےانصاف کیجئے!

.
تازہ ترین