• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاشرے میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی اور انتہا پسندی کے بارے میں بات ہو رہی تھی بتایا گیا کہ جس ملک یا معاشرے میں کسی شخص کو اقتدار، نگاہوں، توجہ اور اہمیت کے مقام سے ہٹانا مقصود ہو اسے جان سے مار دینے، اس کی گردن اڑا دینے یا پھانسی پر لٹکا کر مقصد حاصل کیا جا رہا ہو تو اس ملک اور معاشرے میں ظلم اور ستم کی موجودگی سے نجات نہیں پائی جا سکتی۔ملک کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان، ملک کے پہلے جمہوری طریقہ سے منتخب ہونے والے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر لینے والے جنرل ضیاء الحق اور ملک کی دو مرتبہ وزیراعظم بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو یکے بعد دیگرے قتل کیا گیا جب کہ ملک کے نظام میں ایسے قانونی، اخلاقی اور دستوری طریقے بھی موجود تھے کہ جن کے ذریعے ان سے نجات پائی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی ہماری ستر سالوں سے زیادہ عرصے کی قومی تاریخ بے گناہوں، بے قصوروں اور نیک دل لوگوں کے خون سے لہو لہان دکھائی دیتی ہے اور اگر دیانت داری کے ساتھ غور کرنے کی کوشش کی جائے تو ملک پر ربع صدی تک مسلط رہنے والی ’’دہشت گردی‘‘ کا بیشتر حصہ کسی باہر کے ملک سے پاکستان نہیں آیا ہمارے اندر ہماری اپنی کوششوں اور غیر ذمہ داریوں کی بنیادوں سے اٹھا ہے اور پاکستان کے مردان کے علاقے یا کسی اور علاقے میں بے گناہوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ظلم بھی ہمارے ملک کے اعلیٰ پالیسی سازوں کی پالیسیوں سے ’’ٹرکل ڈائون‘‘ ہوا ہے۔ہمارے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو تقویت دینے کے لئے اپنی رعایا کے دلوں میں خوف اور ڈر یا دہشت اتارنے کے لئے بعض اوقات انتہائی نقصان دہ تجربے کئے ہیں۔ ان تجربوں میں ایک خوفناک تجربہ لاہور شہر میں پپو کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دینے کا انتہائی غیر اسلامی تجربہ بھی تھا۔ اس تجربے کے ذریعے وہ شاید اپنے سیاسی مخالفوں کو احتجاج سے باز رکھنے میں کامیاب ہوئے ہوں گے مگر اپنے عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم بھی کر گئے جس کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی تھی اور شائد یہ بات بھی کہی جا سکتی ہو گی کہ وہ حکمران خود بھی اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اور اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں گر گئے ۔سب سے زیادہ تکلیف اور دکھ دینے والی انتہائی نقصان دینے والی خرابی یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کے حل کے لئے آسانیاں ڈھونڈتے ہیں اور وہ آسانیاں ہماری ذاتی، اجتماعی اور قومی مشکلات میں بدل جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی سیاست دان کو اقتدار سے ہٹانے کا سب سے آسان راستہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے مگر قتل کرنے کے اس عمل میں اس قدر زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں کہ خود قاتل کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور یہ خوف قاتل کی زندگی کی تمام خوشیاں چھین لیتا ہے اور قتل کے ذریعے جو خون بہایا جاتا ہے وہ کبھی خشک، غائب اور معدوم نہیں ہو گا۔ہر ملک اور معاشرے کو اصولوں، ضابطوں، قاعدوں اور قوانین کی حکمرانی اور عمل داری کی ضرورت ہوتی۔ قانون کی حکمرانی سے قانون کی کل داری زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ قانون کا عوام پر رعب نہیں ہونا چاہئے۔ قانون کی حیثیت بھی نہیں ہونی چاہئے قانون کا خوف اور خطرہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ قانون اسی صورت میں قانون ہو گا اور موثر قانون ہو گا جب قانون کا احترام کیا جائے گا۔ قانون کا احترام کسی قانون کا محتاج نہیں ہوتا۔ قانون پر عملدرآمد کا سلیقہ قانون کو احترام، عزت اور قدر فراہم کرتا ہے اور قانون کو ہر کوئی اپنے فائدے کی چیز سمجھتا ہے تو اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔

.
تازہ ترین