• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وحشت، بربریت، سفاکیت، جنون، سنگدلی، چار افراد کے قتل میں یہ ناقابل قبول اور ننگِ ضمیر و قلب عناصر پوری طرح کارفرما ہیں، کسی متوازن مزاج اور درست دماغ فرد کو اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں، البتہ ہو سکتا ہے انسانی زندگی میں ایسے افعال نے بھی جنم لیا ہو جن کا تعلق تذکرہ شدہ مندرجہ بالا شقی القلب کیفیات کے وقت صرف ذہنی برہنگی اور اپنے طاقتور ہونے کے باعث کسی بھی قسم کی شرم و حیا یا خوف سے قطعی بیگانگی سے لدی پھندی متکبرانہ نخوت سے ہو، علاقے کی کسی دھرتی کے ارضی احاطوں کی قومیتوں کی تاریخ بھی اس حوالے سے ایک مستقل تاریخی تاریخ اور ایک مستقل شہادت کا طے شدہ، تسلسل رکھتی ہو مثلاً پنجابی قومیت!
زیر تحریر جن چار افراد سے گفتگو شروع ہوئی وہ ہیں (1) سیالکوٹ کے دو بھائی (2) لاہور ہائیکورٹ سے ملحق فین روڈ پر ایک خاتون کا ہلاک کیا جانا (3)عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشعال یا مشال خان کا قتل، تین قتلوں میں ’’پنجابی قومیت‘‘ اور چوتھے میں ’’پشتون قومیت‘‘ کے افراد شامل ہیں۔ چاروں مر گئے، سوال کے وجود نے مارنے کے طریقے سے جنم لیا ہے، ایک پورا ہجوم تھا جنہوں نے دو بچوں پر اس وقت تک ڈنڈے برسائے جب تک ان کے آخری سانسوں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑ دیا، لاہور ہائیکورٹ سے ملحق فین روڈ پر قابو آئی ہوئی خاتون کو اس وقت تک اینٹیں ماری جاتی رہیں جب تک اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کر گئی، مشال خان کو گولی مار کر پہلے موت کی نیند سلائی گئی، پھر اس کی لاش کو گھسیٹا گیا۔ گوجرانوالہ کا وہ مسلمان نہیں بھولنا چاہئے جسے بہیمانہ تشدد سے موت کے گھاٹ اتار کر اس کا لاشہ بھی گلیوں میں گھسیٹتے رہے، مشال اور گوجرانوالہ کا مقتول مذہبی بنیادوں پر جان سے گئے، جہاں تک یاد پڑتا ہے سیالکوٹ کے دو جواں سال بچوں کے معاملے میں بھی ایسے ہی کسی سبب کی بھی نشاندہی ہو سکتی ہے۔
پاکستانی ریاست کے حکمرانوں اور اعلیٰ، درمیانہ اور آخری درجہ کے اہلکاروں نے ظلم و زیادتی کے جو ابواب بھی رقم کئے وہ ان کا روز مرہ تھا وہ ریاست کے پیڈسٹل پر بیٹھے لیکن ان دونوں صوبوں کا عام آدمی اپنی طاقت اور غصے (اگر اسے موقع مل جائے بالخصوص پنجابی) میں ہر انسانی حد کو سرعام پامال کئے بغیر کبھی متعلقہ واقعہ کا آخری باب رقم نہیں کرتا۔ چنانچہ پنجاب سماجی ظلم و جور کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ لہٰذا جو مرضی شائع ہوتا رہے، جو کوئی جو مرضی بیان دیتا رہے، زمینی حقیقت دونوں بھائیوں، اس خاتون، گوجرانوالہ کے اس پاکستان کے گرد ہی گھومتی رہے گی، جس کے آخری سرے پر جب مذہب کا باب اوپن ہو گا، اس کا آغاز علامہ جاوید الغامدی جیسے عظیم انسانوں کی جبری ہجرت کے عنوان سے کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں انسانی زندگی کے فطری اصولوں سے کشید کردہ روشن خیال بیانیہ جاری نہیں کیا جا سکتا، پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد بالخصوص پنجاب میں دائیں بازو، مذہبی جماعتوں سمیت، کے دانشور اور لکھاری ایسے بیانیہ کے مرتکبین کو عبرت ناک انجام کے دائرے میں لے جا سکتے ہیں! الطاف گوہر مرحوم نے لندن پہنچ کر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’پاکستان میں سچ نہیں بولا جا سکتا‘‘ مرحوم سے اختلاف رائے کی شدت اپنی جگہ، جو البتہ انہوں نے کہا، اس میں جھوٹ کیا ہے؟ لاپتہ افراد جب کبھی ’’لا پتہ افراد‘‘ کس نے ’’لاپتہ کئے‘‘ جیسے معاملات پر دانشوروں کے متفکر سوالات مطالعہ میں آتے ہیں، بے اختیار نالہ و فغاں عرش بریں کی طرف روانہ ہو جاتا ہے، بے ساختہ بندہ سجدہ ریز ہو کے عرض گزاری کرتا ہے: ’’ہم تیری، مخلوق ہیں، ہماری بے بسی صرف تو ہی جان سکتا ہے، یہی دیکھو ’’لاپتہ افراد‘‘ کا ہم کہنا اور لکھنا کیا چاہتے ہیں، کہہ اور لکھ کیا رہے ہیں؟ انا للہ وانا الیہ راجعون!‘‘
اورمشال خان!
برسوں بیتے، قتیل شفائی مرحوم نے ’’ڈرو اس وقت سے‘‘ کی ’’خبر‘‘ دے کر ایک نظم لکھی تھی، ملاحظہ فرمایئے! ؎
ڈرو اس وقت سے
اے شاعرو، اے نغمہ خوانوں، اے صنم سازو
اچانک جب تمہاری سمت
کچھ صدیوں پرانے شیش محلوں سے
سنا سن تیر برسیں گے
بہت چلائو گے تم
اور پکارو گے بہت باذوق دنیا کو
مگر باذوق دنیا کا ہر ایک باشندہ
پہلے ہی سے گھائل ہو چکا ہو گا
جو باقی لوگ ہوں گے
وہ تمہارا ساتھ کب دیں گے
کہ وہ تو رجعتوں کی ہیروئن پینے کے عادی ہو چکے ہونگے
انہیں تو صرف وہ باتیں بھلی معلوم ہوں گی
جہالت کا اندھیرا اور بھی انکی رگوں میں جن سے بھر جائے
وہ باتیں
عقل و استدلال کا ایک شائبہ جن میں نہیں ہوتا
یہ مانا تم بہت سمجھائو گے ان کو
مگر کوئی نہ سمجھے گا
اور اس دورِ سیاہی میں
جو برپا کربلا ہو گی
وہاں کوئی بھی حُر پیدا نہیں ہو گا تمہاری پاسداری کو
ملیں گے سب تمہارے خون کے پیاسے
ڈرو اس وقت سے!
٭٭٭٭
درست ہے، وزیراعظم پاکستان نے کہا ’’قوم متحد ہو کر مشال کے قتل کی مذمت کرے، ‘‘
مریم نواز نے ’’ہجوم کا انصاف ذہنی پستی ہے‘‘ کہہ کر کم از کم ان لوگوں کی درندگی پہ انگلی رکھی، کراچی سے عالم دین مفتی نعیم نے بھی جرأت دکھائی، ان کا یہ بیان سامنے آیا:توہین رسالت ﷺ قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، مشال کو بے قصور شہید کر دیا گیا‘‘ یہ سب درست، سب ٹھیک، مگر یہاں اس ملک میں ایک اور مستند آواز سنائی دیتی رہتی ہے، اس نے مشال خان پر بھی صدا لگائی! ’’چونکہ ہماری ریاست اور اعلیٰ عدالتیں یہ طے کر چکی ہیں کہ اہانت دین کی ایک گھنائونی سازش موجود ہے اس لئے ہر پاکستانی مجبور ہے کہ ہر وقت مستعد رہے اور اپنی صفوں میں گھسے اس گروہ کے ممکنہ سہولت کاروں کو ’’رنگے ہاتھوں‘‘ پکڑ کر لاتوں، گھونسوں اور گولیوں سے عبرت کا نشانہ بنائے، پاکستان کے ہر شہر اور طبقے سے لہٰذا مشال خان منظر عام پر آتے رہیں گے!‘‘

.
تازہ ترین