• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں 15جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد ملک کے سیاسی نظام کی تبدیلی کے بارے میں برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کے رہنمائوں نے عوام کو واضح پیغامات دینے شروع کردیئے تھےتاہم ملک میں نظام کی تبدیلی کے بارے میں ماضی میں ہمیشہ ہی کوشش کی گئی لیکن کوئی بھی رہنما اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اگرچہ صدر رجب طیب ایردوان کے استنبول کے مئیر ہونے کے دور ہی سے ملک میں سیاسی نظام کی تبدیلی کے بارے میں بحث و مباحثہ شروع ہوگیا تھا لیکن ان کے وزیراعظم بننے کے بعد اس سلسلے میں باقاعدہ مختلف حلقوں سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں، جس میں ایردوان کی آواز سب سے بلند تھی اور پھر 15جولائی کو دہشت گرد تنظیم فیتو کی جانب سے ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لینے اور برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سے زبردستی اقتدار چھیننے کی کوشش کے نتیجے میں ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام متعارف کروانے کا قومی سطح پر فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے پارلیمنٹ میں آئین میں اٹھارہ شقوں میں ترامیم کروانے کے لئے ووٹنگ کروائی گئی۔ پارلیمنٹ میں اس بارے میں پیش کئے جانے والے بل کی حزب اختلاف کی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے برسر اقتدار جماعت کی حمایت کی جبکہ حزب اختلاف کی دیگر دو جماعتوں ری پبلکن پیپلز پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے مخالفت کی اور اس طرح ان دونوں جماعتوں کے تعاون کے بغیر پارلیمنٹ سے آئین کی اٹھارہ شقوں کو پارلیمنٹ کے 550 ووٹوں میں سے 339ووٹوں سے منظوری حاصل ہوئی۔ ان ترامیم کو 361ووٹوں سے منظور کرلیا جاتا تو پھر ملک میں ان ترامیم کے بارے میں ریفرنڈم کروانے کی ضرورت باقی نہ رہتی لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں 16اپریل کو ریفرنڈم کروایا گیا۔ اس ریفرنڈم کے بارے میں ملک دو حصوں یا دو بلاکوں میں تقسیم ہو گیا۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ساتھ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے صدارتی نظام کے حق میں مشترکہ طور پر اپنی مہم کا آغاز کیا جبکہ صدارتی نظام کے خلاف ری پبلکن پیپلز پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے مشترکہ طور پر اپنی مہم جاری رکھی۔ دونوں بلاکوں کی مہم کے دوران عوامی جلسے اور ریلیاں کرنے کے لحاظ سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو برتری حاصل تھی اور اس پارٹی نے ملک کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر جلسے منعقد کرتے ہوئے اپنے حریفوں پر برتری حاصل کرلی تھی لیکن اس بار ری پبلکن پیپلز پارٹی اور ان کی حلیف جماعتوں کی جانب سے بڑے وثوق اور اعتماد کے ساتھ اس بات کا برملا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اس بار صدر ایردوان کے صدارتی نظام کو شکست دے کر ایردوان سے جان چھڑالی جائے گی۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی نے صدارتی نظام میں ساٹھ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس بار انہوں نے مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر سر دھڑ کی بازی بھی لگادی تھی۔ اگرچہ اس بلاک نے ترکی کے مختلف شہروں میں جلسے کئے لیکن آق پارٹی جتنا بڑا جلسہ منعقد کرنے میں ناکام رہی۔ اس بلاک کی سیاست ایردوان کو آمر یا ڈکٹیٹر ثابت کرنے اور ملک کا تمام نظم و نسق صرف ایک ہی انسان کے ہاتھوں ہونے کا پرچار کرنے میں گزر گئی۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی کا یہ بلاک جو کہ صدارتی ریفرنڈم کے خلاف تھا کو یورپی یونین کے ممالک کی جانب سے حمایت بھی حاصل ہوگی اور یورپ میں ایردوان کے حق میں مہم چلانے کی کئی ایک یورپی ممالک نے پابندی عائد کردی تاہم اس کا فائدہ ری پبلکن پیپلز پارٹی نہ اٹھا سکی بلکہ یورپ میں مقیم ترک باشندوں نے اسے اپنی شناخت اور بقا کے لئے ایک وار تصور کرتے ہوئے ریفرنڈم کے حق میں ووٹ دے کر صدر ایردوان کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اگرچہ راقم نے اپنے گزشتہ ہفتے کے کالم میں صدر ایردوان کے چون فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کئے جانے سے آگاہ کیا تھا اور حالات بھی صدر ایردوان کے بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کئے جانے کے لئے ساز گار دکھائی دے رہے تھے لیکن اس موقع پر صدر ایردوان کے مشیر کی جانب سے ملک میں صوبائی نظام متعارف کروانے کے غیر متوقع بیان نے حالات کو ری پبلکن پیپلز پارٹی کے حق میں کافی حد تک ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ترکی میں صوبائی نظام کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور کوئی بھی ترک ملک میں صوبائی نظام کے حق میں نہیں ہے بلکہ وہ اسے ملک کی وحدانیت اور یکجہتی پر ایک وار سمجھتا ہےاس نظام کی کھل کر مخالفت کرتا ہے۔ صدر ایردوان کے مشیر کے بیان نے ری پبلکن پیپلز پارٹی نے صوبائی نظام متعارف کروانےکیخلاف واویلا مچاتے ہوئے حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کی آخری کوشش کی جس میں یہ پارٹی کافی حد تک کامیاب بھی رہی اور آخری دو دنوں میں دو فیصد کے لگ بھگ ووٹ اپنے پلڑے میں ڈلوانے میں کامیاب رہی۔ صدر کی حلیف جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے چیئرمین دولت باہچے لی کی جانب سے صدر کے مشیر کے فوری طور پر عہدے سے ہٹائے جانے کے مطالبے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عوام کے دلوں میں شک و شبہات پیدا کردئیےاور اس کا بھر پور فائدہ بھی اٹھایا۔اس صدارتی ریفرنڈم کے نتائج پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کی صدر ایردوان کو اس سے قبل صدارتی انتخابات کے وقت جتنے ووٹ ملے تھے اس بار بھی ان کو کم و بیش اتنے ہی ووٹ ملےہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ صدر ایردوان اور ان کے ساتھیوں جن میں وزیراعظم بن علی یلدرم پیش پیش ہیں کی بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ ترکی میں آج تک کبھی پارلیمنٹ یا پھر عوام کی خواہشات کے مطابق تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ تبدیلی فوج کے دباؤ یا پھر مارشل لا لگانے ہی کی بدولت ہوتی رہی ہے۔ برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اندر سے بھی صدارتی نظام کی مخالفت کی جارہی تھی لیکن ایردوان نے پارٹی کو اپنا ہمنوا بنانے اور اس صدارتی نظام کو متعارف کروانے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔ ناکام بغاوت نے صدر ایردوان کے لئے صدارتی نظام متعارف کروانے کی راہ ہموار کردی اور انہوں نے بڑی تیزی سے اپنی اس مہم کو جاری رکھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے اگر ان کو مزید دو تین ماہ مل جاتے تو وہ لازمی طور پر پانچ سے دس فیصد اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے کیونکہ انہوں نے یہ کامیا بی بہت ہی قلیل مدت میں حاصل کی، پہلے اپنی جماعت کو اپنا ہمنوا بنایا اور اس کے بعد عوام کی بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی پر سب سے پہلے وزیراعظم بن علی یلدرم نے آق پارٹی کے مرکزی دفتر میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مبارکباد پیش کی اور شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد صدر ایردوان نے پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور بعد میں استنبول میں صدارتی محل کے سامنے یکجا ہونے والے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا کہ اب ترکی کی ترقی کی راہ میں کسی کو بھی رکاوٹیں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس نئے صدارتی نظام پر عمل درآمد تین نومبر 2019کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی شروع ہو گا اور اس دو سال کے دوران ملک کے پارلیمانی نظام پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رہے گا۔اس صدارتی ریفرنڈم کی سب سے اہم بات86فیصد ووٹروں کا ووٹ ڈالنا ہے جو کہ تمام یورپی ممالک سے بہت زیادہ ہے۔

.
تازہ ترین