• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی تارکین وطن اُس وقت عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں جب وہاں کی مقامی کمیونٹی ایسے سوالات کی بوچھاڑ کر دے جو پاکستان سے وابستہ ہوں ۔اسپین کےشہر بارسلونا اور اُس کے گرد و نواح میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد آباد ہے ،بھائی چارے اور اچھی ہمسائیگی کے لئے مقامی کمیونٹی پاکستانیوں کے ساتھ دوستی کے بندھن کو مضبوط بنانے میں پیش پیش ہے ۔ا سپینش کمیونٹی امیگرینٹس کے ساتھ مل جل کر رہنے اور اُن کے حقوق کا خیال رکھنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہے ۔کچھ دِن پہلےا سپین کے مقامی لوگوں نے یہاں مقیم پاکستانیوں سے کچھ ایسے سوالات کر دیئے کہ جن کے جوابات کسی کے پاس نہیں تھے ۔سوالات سُن کر وہاں موجود پاکستانی ایک دوسرے کے چہروں کو دیکھ کر شرمندہ ہو رہے تھے ۔یہ سوالات آج کل پاکستان کے ہر فرد کی زبان پر ہیں لیکن وہاں جواب دینے کے لئے مختلف ادارے ،علماء کے فتوے، اساتذہ کی مفصل باتیں، میڈیا رپورٹس، پولیس کی تفتیش اور موقع کے گواہوں کے بیانات جیسے عوامل موجود ہیں۔ سوالات یوں تھے کہ پاکستان کے ایک ایسے تعلیمی ادارے میں کہ جہاں تک 5فیصد لوگ ہی پہنچ پاتے ہیں وہاں ایک طالب علم کو گستاخ رسول ﷺ قرار دے کر سب کے سامنے قتل کر دیا گیا ۔مقامی کمیونٹی انتہائی افسردگی سے پوچھ رہی تھی کہ پاکستان کے شہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک مسلمان کواُس کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والوں اور یونیورسٹی انتظامیہ نے مل کر قتل کیا، نعروں کی گونج میں ایک انسان کے جسم کو اینٹوں، پتھروں اور ڈنڈوںسے مار مار کر کچل دیا گیا، جس دماغ میں علم کا ذخیرہ تھا اُسے بھاری پتھر مار کر ریزہ ریزہ کر دیا گیا، مرنے والے پر ساتھی طالب علم تشدد کر رہے تھے تو کچھ موبائل پراِن لمحات کو محفوظ بنانے میں مصروف تھے ،کوئی ایک فرد بھی مرنے والے کو بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھا مقامی کمیونٹی کے سوالات کی بوچھاڑ جاری تھی ،وہ کہہ رہے تھے کہ جہاں مسلمان نوجوان مشال خان کو قتل کیا گیا وہ نہ کوئی مدرسہ تھا اور نہ ہی اُس عمارت میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی تھی، ایک ماڈرن تعلیمی ادارہ اور وقوعہ پر موجود تمام افراد پڑھے لکھے تھے۔اِس حادثے بلکہ سانحہ کو روکنے یا سمجھنانے والا کوئی نہیں، پرنسپل اور یونیورسٹی کا دوسرا اسٹاف طالب علموں کو مشال خان کوقتل کرنے کے لئے اُکسانے پر مامور، ایسا کیوں ہوا ؟ سیکورٹی ادارے، مقامی تھانے، عدالتیں پاکستان میں کس لئے ہیں اگر سب لوگوں نے اپنی مرضی کے مطابق خود ہی فیصلے سُنانے اور اُن پر عمل درآمد کرانا ہے تو پاکستان میں سیکورٹی اداروںاور عدالتوں کو ختم کر دینا چاہئے ؟مقامی کمیونٹی چیخ چیخ کر جواب مانگ رہی تھی کہ دُنیا بھر میں مقیم مسلمان ا میگرینٹس ’’ اسلام فوبیا ‘‘ کے خلاف احتجاجی جلسے اور جلوس نکال رہے ہیں ،جن ممالک میں یہ احتجاج کیا جا رہا ہے وہاں اسلامی حکومتیں نہیں ہیں، مسلمان امیگرانٹس اِن حکومتوں سے اسلام فوبیا کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان اسلامی ملک ہونے کے باوجود مشال خان جیسے مسلمان کو تحفظ نہیں دے سکا، مشال خان کو موت کی سزا کا حکم نامہ کس نے سنایا تھا، مشال خان سیدھا سادا اور ذہین طالب علم تھا، ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ گستاخی کا مرتکب ہوا، کوئی گواہی نہیں ملی، کسی عدالت میں کیس نہیں چلا، کسی تھانے میں تفتیش نہیں ہوئی، آخر کیوں ؟ اب ان تمام سوالات کے جوابات کہاں سے لائیں اور دیار غیر میں ہم کس منہ کے ساتھ مقامی کمیونٹی کا سامنا کریں ؟مشال خان کے قتل کے بعد پتا چلا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس کی زیادتی کے خلاف آواز بلند کر رہا تھا، وہ ہر ناجائز بات کا جواب مانگتا تھا، مشال خان اپنے ساتھ ساتھ دوسرے ساتھیوں کے حقوق کی بات کرتا تھا ،پولیس نے اُس کے لیپ ٹاپ کا ڈیٹا چیک کیا تو پتا چلا کہ اِس میںایسا کوئی مواد موجود نہیں جو مشال خان کو گستاخ ثابت کر سکے ۔ہمارا ایمان ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کی سزا موت ہے لیکن اُ س کے لئے ہمیں تھانوں اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے تاکہ وہ ادارے اِس بات کی تصدیق کر لیں کہ جس پر گستاخی کا الزام لگایا گیا ہے وہ درست ہے یا کوئی ذاتی رنجش کی بنا پر کسی بے گناہ پر الزام لگا رہاہے ۔مشال خان کے قتل نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، دوسرے ممالک اور دوسرے مذاہب کے لوگ سوال کررہے ہیں، مغربی میڈیا مشال خان کے قتل پر واویلا کر رہا ہے، ہم دُنیا کو کہتے ہیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے، رحم دلی کا درس دیتا ہے، دُنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ سب ہم بالکل ٹھیک ہی تو کہتے اور لکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ دیار غیر میںمقامی کمیونٹی کے سوالات کے جواب میں ہم پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی درس گاہ میں ہونے والے سانحہ کوصحیح یا غلط کا عنوان نہیں دے پا رہے۔ ایک واقعہ لکھنا چاہوں گا، معروف شاعر سید فضل الحسن عرف حسرت موہانی نے 1903ء میں علی گڑھ سے ایک رسالہ ’’اردوئے معلی‘‘ جاری کیاوہ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے، حسرت پہلے کانگریسی تھے، لیکن حکومت کانگریس کے خلاف تھی لہذا 1907میں ایک مضمون شائع کرنے پر حسرت موہانی کو جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد 1947 ء میں پاکستان بننے تک وہ کئی بار قیدی بنے اور رہا ہوئے۔اِن واقعات کو دیکھتے ہوئے ایک دِن کسی دوست نے مولانا حسرت موہانی سے پوچھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ بولے ’’دونوں جگہ جذباتی جنونیت کا دور دورہ ہے اور اپنی تو ہر دو جگہ جان خطرے میں رہے گی،ہندوستان میں رہے توجانے کب کوئی ہندو انتہا پسند’’ مسلمان‘‘ کہہ کر مارڈالے ،پاکستان میں یہی عمل کسی جوشیلے مسلمان کے ہاتھوں ہو سکتا ہے. لیکن وہ مجھے گستاخ یا کافرکہہ کر ماریگا اورمیں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں رہ کر’’ مسلمان‘‘ کی موت مرنا بہترہے پاکستان میں رہ کر’’کافر‘‘ کی موت مرنے سے۔
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر

.
تازہ ترین