• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ہمارا ملک ہے اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے سیاسی اور عسکری قیادت کا اتفاق ہے لیکن پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اس قسم کی باتیں عام ہیں کہ ہم پاکستان کیلئے جان کی بازی لگادیں گے، پاکستان کیلئے جان بھی حاضر ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی جذباتی نعرہ بازی نے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہونے دیا، عالمی برادری حیران ہوتی ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں کے شہری ترقی کیلئے حقیقی جدوجہد کرنے کی بجائے مصنوعی نعرہ بازی سے کام چلاتے ہیں، اس قسم کے بیانات نے پاکستان کو بجائے آگے کی طرف بڑھنے کے پیچھے کی طرف دھکیلا ہے۔مجھے دنیا کے مختلف ممالک جانے کا موقع ملتا رہتا ہے اور میری توجہ کا مرکز وہاں ہونے والی ترقی کا مشاہدہ کرنا بھی ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک ایک دم سے ترقی یافتہ نہیں ہوئے، کم و بیش تمام کی تاریخ ایک طویل جدوجہد سے عبارت ہے، جہاں لیڈرشپ کا قومی وژن وہیں ملک دشمن عناصرکی سازشیں اور قدرتی آفات کا مقابلہ کرنا مشترک ہے، پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج دنیا میں ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں، سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ان ممالک نے اپنی ترقی کیلئے شہریوں سے کوئی جانوں کا نذرانہ طلب کیا ؟ میری نظر میں ایسا کچھ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کے اس کالم کا مقصدان عوامل کا جائزہ لینا ہے جسکی بنا پر پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنایا جاسکتا ہے۔ جہاں ایک طرف ہر انسان کی اپنی کہانی ہوتی ہے وہیں عام زندگی میں عقلمندی کا تقاضاسمجھا جاتا ہے کہ کامیاب افراد کے طرز زندگی، اصولوں اور پالیسیوں کا مطالعہ کرکے خود کو بھی ویسا ہی ڈھالنے کی کوشش کی جائے، یہی اصول قوموں کیلئے بھی کارآمد ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک نے اپنی ترقی کا سفر شروع کرتے وقت کسی نہ کسی ترقی یافتہ ملک کے رول ماڈل کو فالو کیا ہے، خطے میں ہمارا عظیم دوست ملک چین ہے جو ہماری آزادی کے دو سال بعد 1949میں آزاد ہوا لیکن آج کا چین ایک ترقی یافتہ اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت گردانا جاتا ہے، چین نے اپنی آزادی کے بعد اپنے وقت کی سپر پاور اور ہمسایہ ملک سویت یونین کی اقتصادی پالیسیوں کی بنیاد پر قومی ترقی کا سفر شروع کیا،اسی طرح ایک اور دوست اسلامی ملک ملائیشیا نے بھی قومی ترقی کا سفر ہمارے بعد شروع کیا جو آج ایک مضبوط اقتصادی طاقت ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے دوست ممالک کے سفرترقی کا مطالعہ کرتے ہوئے چین اور ملائیشیا کو اپنا ترقی کا روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے۔ چین کی بے مثال ترقی کے پیچھے مخلص چینی قیادت کا قومی وژن، پے در پے ناکامیوں کے بعد کامیابی کے حصول کیلئے جدوجہد، قدرتی آفات کا مردانہ وارسامنا کرنا، بیرونی تنازعات سے حتی الامکان بچنا اور چینی قوم کی انتھک محنت کارفرما ہے، دوسری جنگ عظیم نے چین کو شدید تباہ حال کردیا تھا، ایسے حالات میں جب 1949میں چیئرمین ماؤزے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ لانگ مارچ کے نتیجے میںبرسراقتدار آتی ہے تو پہلی ترجیح تباہ حال معیشت کی بحالی قرار دی جاتی ہے، حکومت چین کا مقصد طویل المدتی اقتصادی اہداف کے حصول کیلئے ملک کو ایک جدید، ترقی یافتہ، سوشلسٹ ریاست میں تبدیل کرنا ہوتا ہے جہاں صنعتی شعبے میں ترقی کرتے ہوئے عوام کیلئے روزگاری مواقعوں کی فراہمی، معیارِ زندگی میں بہتری، سماجی حیثیت میں برابری اور دفاع کو مستحکم کرنا یقینی بنایا جاسکے۔اس حوالے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آزادی کے پہلے تین سال معیشت کی بحالی کیلئے ذرائع ابلاغ اور نقل و حرکت پر خصوصی توجہ دی گئی جبکہ پہلا قومی پانچ سالہ پلان برائے 1953-57 پیش کرتے ہوئے سویت یونین کااقتصادی ماڈل مدنظر رکھا گیا جس میں موثر اقتصادی ترقی کیلئے انڈسٹریل گروتھ اور سوشلائزیشن پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔ زرعی اور صنعتی شعبے میں عدمِ توازن اور غیرحوصلہ بخش نتائج کی بناپر جلد ہی ماؤزے تنگ اور زیرک چینی قیادت بھانپ گئی کہ سویت یونین کاسینٹرلائزڈ اقتصادی ماڈل چین میں قابلِ عمل نہیں جسکی بنا پر 1957میں دستبرداری اختیار کرکے ایک اور گریٹ لیپ فارورڈ مہم کا آغازکیا جاتا ہے، 1960تک جاری رہنے والی اس مہم میںمعاشی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے زرعی سے صنعتی شعبوں کی طرف منتقلی کا عمل شروع کیا گیا، بدقسمتی سے ان حکومتی اقدامات کا نتیجہ ایک ایسے ہولناک قحط کی صورت میں نکلا جس میںسرکاری اعدادو شمار کے مطابق 15ملین افراد لقمہ اجل بنے۔ ان بدترین حالات میں بھی چینی حکومت نے حوصلہ نہ ہارا اور 1961میں ایگریکلچر فرسٹ سب سے پہلے زراعت پر مبنی قومی پالیسی جاری کردی۔ دوسری طرف 1962 میں چین کو بھارت کی جانب سے متنازع علاقے تبت میں مداخلت کی بنا پر جنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن پیش قدمی کے باوجود نومبر1962 میں چینی حکومت سیزفائر کا اعلان کرتے ہوئے علاقے سے فوجیں نکال کر اپنے عوام کی مشکلات دور کرنے میں مصروف عمل ہوجاتی ہے۔اسی طرح عوام کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے 1966-76پر محیط دس سالہ کلچرل ریوولیشن ثقافتی انقلاب کو بھی معاشرتی انتشار کی بناپر بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑ گیا، بعد ازاں، ماؤزے تنگ کی وفات کے بعدچین کی اگلی قیادت ڈنگ شاؤپنگ نے چین کو قدامت پسندی سے جدیدیت کی راہ پر گامزن کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا، عالمی برادری سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ماضی کی فرسودہ پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے وسیع پیمانے پرعالمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشی اصلاحات نافذ کی گئیں، یونیورسٹیاں اور تعلیمی درسگاہیں پھر سے کھل گئیں، ریسرچ اور جدید تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی، بیرونی تجارت کیلئے حکمت عملی وضع کی گئی، عالمی برادری سے تعلقات استوار کرنے کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے گئے،ملکی ترقی کیلئے ناگزیر فارن ٹیکنالوجی اور مشینری امپورٹ کی گئی۔انہی ایام میں 1976میں چین کو بیسویں صدی کے سب سے ہولناک زلزلے کا بھی سامنا کرنا پڑجاتا ہے جس میں سرکاری ذرائع کے ابتدائی تخمینے کے مطابق 6لاکھ55ہزار شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ آج جہاں ساری دنیا موجودہ چینی صدر شی چن پنگ کی قیادت میں چین کوبطور ناقابل شکست معاشی طاقت تسلیم کرنے پر مجبورہے وہیں ہم پاکستانیوں کیلئے یہ سبق ہے کہ ہمارے عظیم دوست ملک چین کی ماضی کی ناکام پالیسیوں پر بروقت نظرثانی نے آج کے کامیاب چین کی راہ ہموار کی ہے، دوسری طرف چین کے ترقی و خوشحالی کے سفر میں نمایاں کردار بیرونی تنازعات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے چینی عوام کی اقتصادی ترقی کو اولین ترجیح قرار دینا بھی تھا، چین نے باوجود عالمی طاقت ہونے کے بیشتر جنگی اور عالمی تنازعات کے موقع پر صبر و تحمل سے کام لیا، تبت تنازع پر خود سیزفائر کرتے ہوئے واپسی کا راستہ اختیار کیا، ہانگ کانگ اور مکاؤ کی عالمی سامراج سے پرامن واپسی کیلئے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہوئے کسی قسم کی عسکری طاقت کا استعمال نہیں کیا، دنیا کے تمام ممالک بشمول بھارت، جاپان اور تائیوان سے مخالفت کے باوجود تجارتی تعلقات قائم رکھے، تائیوان کو اپنا باغی صوبہ تو قرار دیا لیکن ترک تعلق نہیں کیا،عوام کی آمد و رفت اور تجارت کیلئے تائیوان میں بسنے والوں کیلئے خصوصی اجازت نامے کا اجرا کیا، اقوام متحدہ میں شام کے تنازع میں روس اور امریکہ کے مابین ہونے والی حالیہ بدمزگی کے موقع پر قرارداد کی مخالفت یا حمایت سے اجتناب کرکے امن دوستی کا ثبوت دیا۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم بھی اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں، نعرہ بازی کی جذباتی فضا اور الزام تراشی پر مبنی نفرت انگیزسیاست کو ترک کرکے اپنی توانائیاں ملک و قوم کی بہتری کیلئے وقف کردیں، پاکستان کو ہماری جان کی نہیں بلکہ جاندار پالیسیوں کے نفاذ کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین