• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری مجبوری تھی کہ ڈیڈ لائن کے مطابق یہ کالم پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے اعلان سے چند گھنٹے قبل لکھنا تھا تاکہ یہ بروز جمعہ آپ کے سامنے ہو۔ یقیناً جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو عدالتی فیصلہ آچکا ہوگا۔ جن کو اس سے فائدہ ہوگا وہ بھنگڑے ڈال رہے ہوں گے اور جن کا نقصان ہوگا ماتم کر رہے ہوںگے۔ پیپلزپارٹی جس نے بڑی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت نہ تو عدالت عظمیٰ میں پاناما اسکینڈل کے بارے میں کوئی پٹیشن فائل کی اور نہ ہی عدالتی کارروائی کا کسی طرح بھی حصہ بنی پھر بھی اس فیصلے سے فائدہ اٹھانے کیلئے بڑی پرامید اور پرجوش ہے یہاں تک کہ اس نے اپنی تمام سینئر قیادت کو اسلام آباد میں جمع کیاہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان تو ہر عدالتی کیس جس میں وزیراعظم نوازشریف کا نام کسی طرح سے بھی آئے ہمیشہ ہی پرجوش ہوتے ہیں کہ اس فیصلے کے نتیجے میں ان کی چاندی ہو جائے گی۔ موجودہ فیصلے سے پہلے ہی انہوں نے عوامی مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ عوام نے فیصلہ سننے کیلئے نہیں کام کرنے کیلئے منتخب کیا اور وہ کام کرتے رہیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا کہنا تھا کہ یہ عدالتی فیصلہ اگر 20سال تو نوازشریف 40سال یاد رکھے جائیں گے۔ وزیراعظم کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ وہ جمعہ کے روز یعنی عدالتی فیصلے کے ایک دن بعد پشاور موڑ انٹرچینج سے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک میٹرو بس لنک سروس کا سنگ بنیاد رکھیں گے لہٰذا اس طرح انہوں نے ’’business as usual‘‘ کا تاثر دیا۔ اس فیصلے کے ایک روز قبل انہوں نے 1180میگاواٹ بھکی پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ عدالت کا فیصلہ کچھ بھی ہو نون لیگ کے سخت مخالفین بھی مانتے ہیں گو کہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتے کہ نوازشریف حکومت نے بڑے بڑے تاریخی ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں جن میں سے بہت سوں کو بجلی کی رفتار سے مکمل کیا گیا ہے اور باقیوں پر بڑی تیزرفتاری سے کام جاری ہے۔ اقتصادی راہداری (سی پیک)جو صرف ایک خواب تھا کی تکمیل برق رفتاری سے ہو رہی ہے جو کہ کسی بھی دوسری حکومت کیلئے ممکن نہیں تھا۔ سابق صدر آصف زرداری بار بار کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو یہ یقین دلائیں کہ سی پیک دراصل ان کا منصوبہ ہے اور وزیراعظم خواہ مخواہ اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ یقیناً اس میں ان کا کچھ حصہ ہے مگر وہ اپنے پانچ سالہ دور میں مکمل طور پر ناکام ہوئے کہ وہ کوئی بھی پروجیکٹ سی پیک کے تحت شروع کر سکیں۔ جہاں تک گوادر پورٹ کا تعلق ہے یہ تو ان کی حکومت آنے سے پہلے کا ہی جاری ہے۔ اپنی حکومت کے آخری سال میں پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو خیال آیا ہے کہ وہ بھی سی پیک کے فوائد میں سے اپنے صوبے کیلئے کچھ حاصل کرسکیں۔ اب جبکہ ان کی آنکھیں کھلی ہیں تو اپنی حکومت کے آخری سال میں وہ کوئی بڑے ترقیاتی معجزے دکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جن کو وہ اگلے عام انتخابات میں پیش کرکے ووٹ حاصل کرسکیں۔
ایک سال قبل جب پاناما پیپرز سامنے آئے اور سینکڑوں پاکستانیوں کے علاوہ دو آف شور کمپنیاں وزیراعظم کے بچوں کے نام بھی نکلے تو یہ سارا اسکینڈل سیاسی نوعیت اختیار کر گیا اور ایسی دھول اڑائی گئی کہ باقی کسی نام کا تو ذکر نہ ہوا مگر سارا گھیرا نوازشریف کے گرد تنگ کیا گیا حالانکہ وہ نہ تو کسی آف شور کمپنی مالک تھے اور نہ ہی ان کا پاناما پیپرز میں نام تھا مگر بچوں کے نام ہونے کی وجہ سے ان کے مخالف سیاستدانوں نے ان کو رگڑا لگانا شروع کر دیا۔ وزیراعظم نے فوراً ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن بنانے کی پیشکش کی تاکہ اس اسکینڈل کی تحقیقات کی جاسکے۔ عمران خان اور ا نکے دوسرے ہمنوائوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں حاضر سروس ججوں پر کمیشن بنایا جائے۔ نوازشریف نے یہ مطالبہ مان لیا مگر عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی موجودہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن بنانے کو تیار نہ ہوئے اور وزیراعظم کو خط کے ذریعے بتایا کہ یہ قانون بیکار ہے جس کے تحت اس پیچیدہ معاملے کی صحیح تحقیقات ہونا ممکن نہیں ہے۔ پھر وزیراعظم نے وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی کہ وہ اپوزیشن سے نیا قانون تیار کرے اورعدالتی کمیشن کے ٹی او آرز بھی بنائے۔ پہلے دن سے ہی پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اس بات پر بضد تھیں کہ احتساب صرف وزیراعظم اوران کے خاندان کا ہو نہ کہ باقی لوگ بشمول عمران خان، جہانگیر ترین، علیم خان وغیرہ بھی اس نیٹ میں شامل کئے جائیں۔ حکومتی اور اپوزیشن کی ٹیمیں کئی ماہ تک میٹنگ میٹنگ کھیلتی رہیں اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں۔ اپوزیشن کی کوشش تھی کہ اس مسئلہ کو جتنا لٹکایا جائے اتنا ہی انہیں سیاسی فائدہ ہوگا اور وزیراعظم دبائو میں رہیں گے۔ بالآخر عمران خان اور کچھ دوسرے سیاستدانوں نے عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کر دیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بننے والے بنچ نے کچھ عرصہ اس پر کارروائی کی مگر ان کی ریٹائر منٹ کے بعد نیا بنچ تشکیل دینا پڑا جس کے ہیڈ جسٹس آصف سعید کھوسہ بنائے گئے۔ 126 روز تک جاری رہنے والی عدالتی کارروائی کو اگر سرسری نظر سے ہی ذہن میں لایا جائے تو کوئی دن ایسا نہیں تھا جس دن سیاست کا غلبہ نہ رہا ہو۔ عمران خان گزشتہ چار سال میں ہر غیر قانونی حربہ استعمال کر چکے تھے کہ وہ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم کو گھر بھجوا سکیں مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کی اسٹریٹ پاورکا ہوا بھی یکم نومبر 2016ء کو دھڑام سے زمین پر گرا جب انہیں اسلام آباد لاک ڈائون نہیں کرنے دیا گیا۔ سیاسی میدان میں لگاتار ناکامیوں کے بعد انہوں نے ساری امیدیں عدالت عظمیٰ سے لگا لیں مگر کوئی ایک بھی ثبوت عدالت میں پیش نہ کرسکے جس سے وزیراعظم یا ان کے بچوں کا کوئی جرم ذرہ برابر بھی ثابت ہو۔ ہاں البتہ وہ سیاسی بیان بازی میں لگے رہے۔ایک موقع پر انہوں نے خود عدالت کو بتایا کہ ان کا کام صرف الزام لگانا ہے ثبوت پیش کرنا نہیں اور شہادت اکٹھا کرنا عدالت کا کام ہے۔ ان کے وکیل نے بھی صرف بحث ان دستاویز پر ہی کی جو کہ شریف فیملی نے عدالت میں پیش کی تھیں اور وہ وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر اور قوم سے خطابات میں ہی تضادات تلاش کرتے رہے۔ اس لمبی ہائی پروفائل عدالتی کارروائی میں جج صاحبان کے ریمارکس اور آبزرویشنز اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی ہیڈ لائن بنتے رہے حالانکہ کہا یہ جاتا ہے کہ جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ بلاشبہ پانچوں جج جو اس بنچ کے ممبر تھے وہ فیصلے آئین اور قانون کے تحت کرنے میں ہی مشہور ہیں۔

.
تازہ ترین