• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جبکہ ملالہ کو اقوام متحدہ بلاکر، امن کے سفیر کا اعزاز دیا گیا ہے۔ عجیب سا لگ رہا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے مبارکباد تو کجا تحسین میں دو فقرے بھی نہیں کہے گئے۔ پاکستان میں حکومت اور پارٹیاں، دراصل اپنی لغت تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
میرا عاجزانہ مشورہ یہ ہے کہ محض لفظوں کی تبدیلی سے صرف اخباروں کے صفحے بھریں گے اور شام کو سات بجے سے 11 بجے رات تک لفظوں کی جلیبیاں بنیں گی وہی جو جہاد کی اہمیت پہ سعودی عرب سے انڈونیشیا تک غلغلہ مچائے ہوئے تھے، وہ اب کیا کررہے ہیں۔ بالی کے جزیرے میں ایک عرب حکمران کے آرام کے لئے تین بڑے جہازوں میں آئے سامان کی حفاظت کررہے ہیں۔ پاکستان میں قطری شہزادوں کے شکار کے لئے، افسروں کی ڈیوٹی لگارہے ہیں۔ شامی صدر کی حفاظت کے لئے کیمیکل بمبنگ کررہے ہیں اور امریکی عادتاً اس جنگ کو افغانستان کی جنگ کی طرح پھر 1980 والی کہانی دہرانے لگے ہیں۔ گویا جو روسی اور امریکی جنگ کے دوران ہم نے پاکستان میںبھر پایا اور بھگت رہے ہیں، اس میں ہماری تین نسلیں برباد ہوئی ہیں۔ امریکہ سے یورپ تک، جذباتی نوجوان گولیاں چلا کر معصوم لوگوں کا ایک طرف خون کررہے ہیں اور دوسرے یہ کہ بدنام اسلام کو کررہے ہیں۔ جب عالمی سطح پر حکومتی اداروں پر نظر ڈالتی ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ دوسرے ممالک میں جتنی چیئر علامہ اقبال، قائداعظم کے نام ہیں وہ خالی پڑی ہیں۔ جن ملکوں میں فیلوز اردو کی اسامیاں ہیں وہ خالی پڑی ہیں۔ ہماری برآمدات میں 3 فیصد کمی آئی ہے وجہ ناقص سامان کی سپلائی اور بے ایمانی۔ اوپر باسمتی چاول اور نیچے ٹوٹا رکھ دیا جاتا ہے، بالکل اس طرح جیسے ہر دوسرے شہر میں نقلی مسالےاور کولڈ ڈرنکس ملتی ہیں، بالکل ایسے جیسے سندھ کیا پنجاب کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں whatsapp پر پرچے کا حل ساتھ لے کر بچے جاتے ہیں، استاد کھڑے کھڑے مسکراتے رہتے ہیں، ان کو بھی اپنی عزت عزیز ہوتی ہے۔
منافقت کی انتہا یہ ہے کہ سب اخباروں میں اور نیٹ پر شائع ہوچکا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کے دوبارہ منتخب ہونے کے لئے کسی اسلامی ملک نے مدد کی ہے۔ ہمیں اس پر بھی اعتراض نہ ہو کہ اگر وہ فلسطینی بستیوں سے یہودیوں کا انخلا کروا سکیں اور فلسطین کو اقوام متحدہ کے تسلیم کرنے کے باوجود سکون کی زندگی گزارنے کا ماحول پیدا کرسکیں۔ عجب منظرنامہ ہے کہ یمن کا ملک اور عوام بے گناہ ہی موت کے منہ میں جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کیا کمال ہے امریکہ نے طالبان کو پاکستان میں فروغ دیا، جب کام نکل گیا تو اب پاکستان کو Do More کہا جارہا ہے۔ پلٹ کے دیکھیں آج سے تین سال پہلے جب لوگ آوازیں اٹھارہے تھے تو جواب آتا تھا دشمنوں کی پھیلائی خبر ہے، پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اب کیڑے مکوڑوں کی طرح نہ صرف پاکستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی داعش کے تربیت یافتہ لوگوں کی نشاندہی ہورہی ہے۔ جن لوگوں کو دہشت گردی کا سرچشمہ کہا جاتا ہے، وہ بڑے آرام سے ہیں۔ ساری دنیا ان کی طرف انگلیاں اٹھارہی ہے، ہماری عدلیہ بھی کہہ دیتی ہے کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہے ہی نہیں، ایکشن کیا لیں۔ میں نے چونکہ ماسٹرز اکنامکس میں کیا تھا اس لئے جب بیرونی قرضوں کی واپسی کے مسئلے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی ہوں، جب پٹرول کی ہرر وز بڑھتی ہوئی قیمت دیکھتی ہوں، 400 روپے کا ایک کلو لہسن خریدتی ہوں، سرگودھا کے روحانیت کے نام پر لوگوں کو ذبح کئے جانے کے ماجرے کو فراموش گاہوں کی طرف دھکیلتے ہوئے دیکھتی ہوں تو گڈ گورننس جیسے لفظ مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ کشمیر کو شہ رگ کہنے والے نہ صرف بھول گئے ہیں بلکہ بزدل لگتے ہیں، ورنہ کشمیر میں مسلسل خونریزی پر دنیا بھی خاموش کیوں ہے۔ ویسے بھی کشمیر کا فیصلہ ادھر ادھر ہونے سے نہیں، مفاہمت اور اوپن بارڈر سے ہی ہوگا۔ سعودی حکومت نے ریاض کے قریب ایک عوام کی دلچسپی کا پارک 334کلومیٹر کے رقبے پر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے عوام کی دلچسپی کن چیزوں میں ہے میری خوش فہمی کو ختم نہ کیجئے اور اس خبر کا لطف لیجئے کہ ہماری کے پی حکومت نے 2 ہزار گدھے چین کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انسانوں کی شکل میں ہمارے پاس لاکھوں ایسے ہی لوگ ہیں، خود کے پی میں بہت سے ایسے ہوں گے، ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کا شاید یہی مداوا ہوجائے۔ شاید ہم سیکھ جائیں کہ ہمسائیوں کے ساتھ دشمنی میں ہم نے 70 سال گنوادئیے ہیں۔ میں 13 اپریل کو کالم لکھتے ہوئے یاد کررہی ہوں کہ جنرل ڈائر نے کیسے جلیانوالہ باغ میں بے دریغ گولیاں چلائی تھیں اور ہمارے بچے پوچھتے ہیں کیا ان میں مسلمان بھی شامل تھے! انگریزوں سے لڑائی میں ہندو مسلم اس وقت مل کر لڑرہے تھے۔

.
تازہ ترین