• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ہفتے سے میں نے ایک بار پھر کراچی کو درپیش مسائل اور اس سلسلے میں کراچی میں سیاست کرنے والی مختلف پارٹیوں کے رویوں پر کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پچھلے کالم کا اختتام اس انکشاف پر کیا تھا کہ کراچی کے شہر سے سمندر میں گرنے والا گندا کالا پانی Effluent سمندر میں آگے جاکر سمندر کے کالے بیلٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ میں نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ کراچی شہر میں قائم مذبحہ خانوں میں ذبح ہونے والے جانوروں کا خون اور اعضا سمندر میں گرتے ہیں اور سمندر میں آگے جاکر ایک الگ انتہائی سرخ سمندری بیلٹ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سمندر میں ایک خاص مرحلے کے بعد دور سے دیکھنے کے نتیجے میں تین سمندر یعنی ایک اصل رنگ ہلکے آسمانی یا ہرے رنگ کا سمندر‘ ایک کالا سمندر اور ایک سرخ سمندر نظر آتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ کراچی پر ایک خاص مدت تک اکٹھے حکومت کرنے والی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے آج تک اس صورتحال کا ذکر کیا اور نہ اس صورتحال کا تدارک کیا‘ ہمارے ان مہربانوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ان دو مزید سمندروں یعنی کالے سمندر اور سرخ سمندر کی وجہ سے سمندر میں سفر کرنے والوں کے لئے کیا مشکلات پیدا ہوتی رہی ہیں اور یہ کہ کہ کراچی کی ماحولیات پر ان دو خطرناک سمندری بیلٹس کے کتنے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بات ماننی پڑے گی کہ ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی سیاسی جماعت ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کے سربراہ نے حال ہی میں کراچی میں پانی کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے سمندر میں گرنے والے Effluent اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مادے کا ذکر ضرور کیا تھا مگر یہ نہ بتاسکے کہ انہوں نے کراچی کے سمندر کو اس زہریلے مادے اور Effluent سے محفوظ کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے مگر آج کے کالم میں کوشش کروں گا کہ بتائوں کہ اس زہریلے مادے اور Effluent اور سرخ خونی بیلٹ کے کراچی کے سمندر اور کراچی پر کیا خطرناک اثرات مرتب ہوئے اور کیا مشکلات پیدا ہوئیں۔ اس وقت میں اسلام آباد میں یو این ڈی پی کے ایک اہم پروجیکٹ "Sensitizaton of parlimentarians on environmental issues" کا انچارج تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت بار بار سندھ کے دورے پر آتا رہا‘ کبھی حیدرآباد کی پھلیلی نہر میں حیدرآباد شہر سے جانے والا Effluent اور شہر کے کارخانوں کا زہریلا مادہ گرنے کے بارے میں تفصیلی ڈاکیومنٹریز بنائیں‘ کبھی کوٹری میں کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا مادہ اور کوٹری شہر اور اردگرد کا Effluent اس کینال میں گرنے کی ڈاکیومنٹریز بنائیں۔ واضح رہے کہ یہ مکروہ پانی بعد میں کینجھر لے جایا جاتا تھا جہاں سے یہ پانی کراچی کو فراہم کیا جاتا تھا‘ اس کے بعد کراچی پہنچا اور کراچی میں کئی ہزار گیلن شہر کا Effluent اور کراچی کے کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا مادہ سمندر میں گرنے کی فلم بنائی۔ آخر میں اسلام آباد سے تین سنیٹرز جن میں سینیٹر نثار میمن‘ پی پی کی سینیٹر فوزیہ وہاب اور سابق صدر فاروق لغاری کے چھوٹے بیٹے جو اس وقت سینیٹر تھے کو ساتھ لیکر کراچی پہنچا‘ ایک دن ایک بیڑہ کا انتظام کیا جس پر نہ فقط یہ تینوں سینیٹر تھے بلکہ میں نے اپنے دوست صحافی مجاہد بریلوی کو بھی مدعو کیا،جب یہ بیڑا سمندر میں ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں حقیقی طور پر ایک نہیں تین سمندر نظر آئے یہ دیکھتے ہی مجاہد بریلوی سمیت سارے سینیٹر پریشان ہوگئے‘ بعد میں‘ ہم نےجو ڈاکیومنٹریز بنائیں اور تفصیلی رپورٹ تیار کی انہیں ملک اور بیرون ملک کے کئی متعلقہ ماحولیاتی اداروں کو ارسال کیا گیا‘ اس کے فوری بعد سینیٹر نثار میمن نے کراچی میں اس ایشو پر ایک اجلاس کا اہتمام کیا۔ اس میں نیوی کے افسران کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس میں جہاں نثار میمن نے اپنے Observations پر مشتمل رپورٹ پیش کی اور میں نے اپنی رپورٹ پڑھ کر سنائی اور ساتھ ہی تیار کی گئی ڈاکیومنٹری بھی سب کو دکھائی گئی۔ اس مرحلے پر نیوی کے افسران نے بھی اس ایشوپر بریفنگ دی۔ نیوی کے افسران نےمجھے دوسرے دن نیوی کے ہیڈ کوارٹر میں مدعو کیا وہاں انہوں نے مجھے دو ایسے سمندری جہازوں کی فلم دکھائی جو سمندر میں کھڑے تھے۔افسران نے بتایا کہ یہ دونوں جہاز اس وجہ سے خراب ہوگئے کہ یہ کالے اور سرخ بیلٹ سے گزرے‘ اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور اہم انکشاف کیا اور بتایا کہ کچھ دن پہلے پاکستان اور دبئی کی حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں دبئی سے کراچی تک فیری سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب مسافر لیکر پہلی فیری دبئی سے کراچی کے نزدیک پہنچی تو یہ فیری ان دو کالے اور سرخ سمندری بیلٹ میں پھنس گئی‘ یہ فیری ڈوبنے لگی اور مسافروں کی زندگیاں خطرے میں تھیں‘ اس فیری کے ڈوبنے کی اطلاع نیوی کو دی گئی‘ نیوی والوں نے خصوصی بیڑے بھیج کر ان مسافروں کی زندگیاں بچائیں‘ اس کے بعد اطلاعات کے مطابق کراچی اور دبئی کے درمیان فیری سروس بند ہوگئی البتہ اس دن کے بعد دبئی اور ممبئی کے درمیان مسافروں کی فیری سروس شروع ہوگئی جو ابھی تک چل رہی ہے۔ سندھ اور کے ایم سی پر مشترکہ طور پر حکومت کرنے والوں کی طرف سے آج تک اس سلسلے میں کوئی بات نہیں سنی گئی۔ جہاں تک کراچی کے لئے پانی کی فراہمی کا تعلق ہے تو کراچی کو بڑے عرصے سے دریائے سندھ کا پانی کینجھر جھیل سے ایک کینال کے ذریعے فراہم کیا جاتا رہا ہے‘ بعد میں بلوچستان کے حب ڈیم سے بھی کراچی کو پانی فراہم کیا جانے لگا مگر دریائے سندھ سے فراہم کیے جانے والے پانی کی مقدار کے مقابلے میں حب ڈیم سے فراہم کیے جانے والے پانی کا تناسب بہت کم ہے‘ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ دریائے سندھ کراچی کی سرحدوں سے نہیں گزرتا‘ صدیوں سے دریائے سندھ کا پانی براستہ ٹھٹھہ اور بدین سے سمندر میں گرتا رہا ہے‘ جب 1991 ء میں چاروں صوبوں کے درمیان پانی کا معاہدہ ہوا تھا تو اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ کراچی کو اتنی مقدار میں سندھ کے حصے سے سندھو دریا سے پانی فراہم ہوتا رہے گا جتنا ہوتا رہا ہے‘ مگر کراچی کی آبادی بے پناہ حد تک بڑھتی رہی‘ بہرحال ایک مرحلے پر سندھ میں پی پی سے مشترکہ طور پر حکومت کرنے والی پارٹیوں کی طرف سے کیے گئے فیصلے کے مطابق کراچی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دریائے سندھ سے سندھ کے حصے سے پانی کا ایک حصہ کراچی کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ پانی کا یہ حصہ 91 ء کے معاہدے کے تحت ٹھٹھہ ضلع کے لوگوں‘ فصلوں اور لائیو اسٹاک کے لئے مخصوص تھا مگر ٹھٹھہ کے لوگ کراچی کے عوام کی ضروریات کےمدنظر خاموش رہے اور پانی کا یہ حصہ بھی کراچی کو موصول ہوتا رہا۔

.
تازہ ترین