• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے قیام کا یہی مقصد تھا کہ ایسی مملکت حاصل کی جائے جہاں ہم آزادی سے سانس لے سکیں اپنے نظریات اور تمدن کے مطابق زندگی گزارسکیں اور جہاں معاشرتی انصاف کے اصولوں کا بول بالاہو۔دنیا میں ہزاروں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور فوت ہوجاتے ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو امر ہوجاتے ہیں۔شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔جو فوت ہوکر بھی زندہ و جاوید ہیں۔ان کا کلام آج بھی لوگوں کو محبت اعتماد اور جدوجہدِ مسلسل کی تعلیم دے رہاہے۔حضرت علامہ اقبالؒ نے تصور پاکستان کے خالق کی حیثیت سے ہماری قومی زندگی میں جو مثبت اور مؤثر کردار ادا کیا ہے وہ ہماری قومی تاریخ اور ہمارے قومی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دو قومی نظریہ کی ترویج و ترتیب میں علامہ سے پہلے بھی ہمارے بہت سے مفکرین، دانشوروں اور ارباب فہم و فراست نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن نظریہ پاکستان کو ایک مستقل شکل و صورت عطا کرنے اور اس سلسلے میں ایک مکمل مفصل تخیل کی آبیاری سب سے زیادہ مؤثر انداز میں حضرت علامہ اقبالؒ نے کی۔اسی لئے تصور پاکستان کے خالق اور مفکر پاکستان کے نام سے آج بھی انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نہ صرف شاعر مفکر اور فلسفی تھے بلکہ وہ روحانی علوم سے آشنا دنیاوی علوم سے باخبر اور بلند پایہ استاد بھی تھے۔ علامہ اقبالؒ ہی ہمارے وہ محسن ہیں جن کی فکر و تخیل سے پاکستان وجود میں آیا اور شاید ہی کوئی ایسا شاعر گزرا ہو جس کے تصور و تخیل نے ایک مملکت کی صورت میںشکل اختیار کی ہو۔ علامہ اقبالؒ نے اندازہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کااصل سبب احکام الٰہی سے روگردانی ہے لہٰذا انہوں نے اپنی شاعری کا محور و موضوع بھی خصوصیت سے قرآن مجید کے احکامات اور احادیث نبوی ﷺ کو ہی بنایا۔ علامہ اقبالؒ کو حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس سے جو والہانہ محبت و عقیدت تھی وہ جگہ جگہ ان کے کلام سے ظاہرہوتی ہے وہ جانتے تھے کہ مسلمان اگر آج بھی خدا اس کے احکام اور اس کے نبی ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے لگیں تو تمام عالم میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔
آج ہم اپنے عظیم مفکر حضرت علامہ اقبال کی یاد تازہ کر رہے ہیں تو ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ کیا آج کا پاکستان افکار اقبال کے مطابق ہے ؟ کیا یہ وہی اسلامی مملکت ہے جس کا وعدہ حضرت قائداعظمؒ نے کیا تھا ؟ ہم سب بھول کر آپس میں دست و گریباں ہو گئے ہیں ہم میں صوبائیت لسانیت علاقائیت اور فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ دشمن ہماری صفوں میں گھس کر ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے مگر ہم ہیں کہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں اگر ہمیں ایک باوقار اور خود مختار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو ہمیں ایک بار پھر بانیان پاکستان کے افکار و نظریات کی روشنی میں قومی و ملکی سلامتی کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ ہمارا اولین فرض ہے کہ آج کے دن یعنی 21اپریل کو اس عظیم مفکر کی یاد مناتے ہوئے ان کے افکار کو اپنی زندگی کا عملی حصہ بنائیں۔ ان کے افکار کے مطابق ہم ایک ہجوم کے بجائےایک قوم بنیں۔ یکجہتی اور بھائی چارے کی فضاقائم رکھتے ہوئے ملک و ملت کی ترقی کے لئے دن رات کوشاں رہیں۔
حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی یاد ہماری قوم کا عزیز ترین سرمایہ ہے۔ علامہ اقبالؒ بلاشبہ ہمارا سب سے بڑا فکری سرمایہ ہیں، اس مملکت خداداد کا ہر شہری اس اعتبار سے ان کا احسان مند ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خود مختار وطن کا تصور پیش کیا۔ یہ حکیم الامت ہی تھے جنہوں نے ملی تشخص اور اسلامی تشخص کا شعور پیدا کیا۔ شاعر مشرق حکیم الامت فلسفی اور معلم ہی نہیں بلکہ ایک عملی سیاستدان بھی تھے۔ پاکستان آج کل جن مسائل ے دوچار ہے ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمیں فکر اقبال سے آگاہ ہونے کی ماضی سے زیادہ ضرورت ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ہمیں اسلام کے عالمگیر اصولوں پر عمل پیرا ہونے، وطن اور علاقے کی قیود سے نکلنے اور پوری امت مسلمہ کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنی تمام ذہنی، فکری اور مادی صلاحیتیوں کو بروئے کار لانے کی ہدایت کی تھی۔ ان کے افکار پر عمل کرکے ہی ہم اپنے وطن میں ہر قسم کی علاقائی، گروہی اور طبقاتی کشمکش ختم کر سکتے ہیں۔ ہم نے علامہ کے افکار اور اقوال کو جس طرح نظر انداز کیا ہے وہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔ہم اپنی اقدار کو بھول گئے ہیں علامہ کے اقوال کو نظر اندازکردیاہے جبکہ علامہ نے تو یہ فرمایاتھا کہ ہم کو ایک ایسی مملکت حاصل کرناہے جہاں ہر پاکستانی آزادی سے سانس لے سکے لیکن ہم تو آپس میں دست و گریبا ںہیں۔ ایک دوسروں کی خوشیوں اور خواہشوں کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ آج ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہم اپنے محسن کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں یا ان کی روح کو اذیت دے رہے ہیں۔
اب وقت آگیاہے کہ تفرقہ بازی، آپس کے اختلافات بھُلا کر مفاہمت کی راہ اختیار کریں۔اس ملک نے ہی تو ہمیں اتنا کچھ دیاہے اور اسی سے ہماری پہچان بھی ہے۔ اسے اگر (خدانخواستہ ) کچھ ہوگیا توہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔21اپریل کا دن ہمیں علامہ اقبال ؒکی یاد دلاتاہے۔ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے عظیم مفکر کی یاد مناتے ہوئے ان کے افکار کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ہم علامہ کے اقوال کو اسی صورت عملی جامہ پہنا سکتے ہیں جب ہم آپس میں اتحاد و اتفاق، یکجہتی اور بھائی چارے کے اصولوں پرصدقِ دل سے عمل کریں گے۔
آئیے! علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ کے پاکستان کو اُن کے تصورات اور خوابوں کی عملی تصویر بنانے کیلئے ایک ہوجائیں۔ 21اپریل کو عظیم مفکر کی یاد مناتے ہوئے ان کے افکار کو اپنی زندگی کا عملی حصہ بنانے کا عہد کریں،کامیابی ہماری منتظر ہے۔
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں؟
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلائوں؟
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن

.
تازہ ترین