• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلّقات مزید کشیدگی اختیار کر گئے ہیں۔ بھارتی ٹی وی چینلز پر پاکستان کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی امڈآیا ہے۔ جگہ جگہ مظاہرے ہو رہے ہیں اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کی مرکزی حکومت کو کوس رہی ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کررہی حالانکہ بی جے پی کی پاکستان دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔اس سارے کشیدہ ماحول میں پاکستان کے ایک ریٹائرڈ فوجی لیفٹیننٹ کرنل حبیب طاہر اچانک نیپال سے گم ہو گئے ہیں۔ جس کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہیں ایک سازش کے تحت ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے نیپال سے اغوا کیا ہے اور وہ اس وقت انڈیا کی حراست میں ہیں۔ اسی قسم کے دعوے انڈین حکومت اور ان کے ریٹائرڈ فوجی کر رہے ہیں کہ کلبھوشن کو ایران سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اغوا کیا تھا۔ حال ہی میں اچانک لا پتہ ہونے والے پاکستانی فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) حبیب طاہر کے بارے میں ایک انڈین اخبار نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ ان کا کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے گہرا تعلق تھا اور وہ اس ٹیم کا حصّہ تھے جنہوں نے کلبھوشن کا تعاقب کیا اور انہیں گرفتار کرانے میںاہم کردار ادا کیا۔ بقول اس اخبار کے کلبھوشن کی سزائے موت کا اعلان بھی کرنل (ر) حبیب طاہر کی گمشدگی کے فوراََ بعد کیا گیا ہے۔ گویا برّصغیر پاک وہند میں نفرت اور انتقام در انتقام کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا اور خاص طور پر سنسنی خیزی پھیلانے والے میڈیا کے ہاتھ میں عوام کو مشتعل کرنے کا ایک نیا موضوع آگیا ہے۔ اس نفرت اور انتقام بھری فضا میں جہاں انتہا پسندوں کو کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔ وہاں سرحد کے دونوں جانب ایسے سنجیدہ اور ہوشمند افراد کی تشویش میں بھی اضافہ ہو گیا ہے جو اس خطّے میں جنگی جنون کے اضافے سے خوفزدہ ہیں۔ اور دو ایٹمی طاقتوں کے تصادم کے تصّور سے بھی لرزہ براندام ہیں۔ جو حب الوطنی کے نام پر جنگی جنون ، نفرت اور انتقام کو خلافِ انسانیت فعل گردانتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ برّصغیر پاک وہند کے عوام گزشتہ 70سال سے غربت، بے روزگاری اور دیگر مسائل کی جس چکّی میں پس رہے ہیں۔ اُس کی بنیادی وجہ پاک بھارت کشیدگی اور جنگی جنون ہے جسے ہر قیمت پر روکنا چاہیے تاکہ ہماری اگلی نسلیں ہماری طرح نفرت، انتقام اور خوف کی فضا میں نہ جئیںاور وہ بھی دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو جائیں۔ کیونکہ ترقی کے لیے امن اور ذہنی سکون بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹریک ٹو پالیسی کے تحت پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کی دبئی میں بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور دیگر امن پسندادارے اور این جی اوز بھی رابطے میں ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کشیدگی کا یہ عمل اُن حدوں کو نہ چھو پائے جہاں انسانیت کے پاس ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ بچے۔دونوں طرف کی حکومتیں اور میڈیا اپنا زیادہ وقت اور زور اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنے میں صرف کر رہا ہے کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ایک دوسرے ملک کے معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہیں اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی میں ملّوث ہیں۔ پتہ نہیں اس الزام در الزام سے دونوں اطراف کی حکومتوں کا مقصد کیاہے؟ جو بات ساری دنیا جانتی ہے اسے دونوں اطراف کے لوگ کیوں بار بار دہرا رہے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ دونوں ممالک گزشتہ ستر سالوں سے دشمنی کی آگ میںجل رہے ہیں۔ تو کیا دشمنوں کو پھولوں کے تحفے دئیے جاتے ہیں؟ دشمنوں کے خلاف تو سازشیں ہی کی جا سکتی ہیں۔ جن سے ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے ۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میںجو کردار ادا کیا اس کا وہ برملا اعتراف کرتاہے اسی طرح پاکستان نے جو ’’ آپریشن جبرالٹر‘‘ مقبوضہ کشمیر کے اندرکیا تھا۔ جو بعد میں 1965کی جنگ ِ ستمبر کا پیش خیمہ ثابت ہوا اس سے پاکستان کے سابق اعلیٰ فوجی آفیسر اور دیگر ادارے انکار نہیں کرتے ۔ تو پھر کیا انڈیا کی طرف سے کرنل حبیب طاہر یا پاکستان کی طرف سے کلبھوشن یادیو کو جاسوسی کے الزام میں پکڑنے اور سزائے موت دینے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اور مسائل ہمیشہ کے لئے حل ہوجائیں گے؟ جب تک مرا ہوا کتا کنویں سے نہیں نکالا جاتا محض پانی نکالنے اور شور مچانے سے وہ پانی پاک نہیں ہوگا۔ جب یہ طے ہے کہ دونوں ممالک ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں اور انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے تو پھر اصل کام ہے اصل مسئلے کو حل کرنے کا۔ کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے ’’ اصل مسئلہ ‘‘ پھر لٹک جاتاہے اور دونوں طرف کے جذباتی عوام اور حکومتیں اپنے اپنے اقدامات سے اضافی مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ جنہیں حل کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کو جان لینا چاہئے کہ کشمیر یوں کی تیسری نسل بھی بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو بھارت کو اسے ہر حال میں تسلیم کرنا ہی پڑے گا اور کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینا ہی ہوگاجبکہ پاکستان کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ پاکستان کے پانی کے تمام ذرائع اس وقت بھارت سے نکلتے ہیں جس کی کمی ہمارے لئے کئی دیگرخوفناک مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ نیز کشمیر میں جاری جدوجہد ِ آزادی اگر خود مختار کشمیر کی شکل میں سامنے آتی ہے تو پاکستان کا کیا ردّ ِ عمل ہوگا؟ صرف زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے ہی خطّے میں امن اور سکون ہو سکتاہے۔ہماری جذباتی خواہشات سے نہیں۔

.
تازہ ترین