• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُن افراد کے محرکات اور فکری میک اپ کو کیسے سمجھا جائے جو توہین کے الزام میں اپنے ساتھی شہریوں پر تشدد کرنا ، اُنہیںزندہ جلانا اور قتل کرنا جائز سمجھتے ہوں، ؟کون سی چیز اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ محض توہین کا الزام ہی کسی ہجوم کے لئے اپنے ہم وطن، بلکہ ہم مذہب شخص کو بلا تحقیق ہلاک کرنے کا جواز بن جائے ؟ ایک ایسے ملک ، جس میں ستانوے فیصد کے قریب مسلمان ہوں جو پیغمبر ِ رحمتﷺ سے عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے ہوں، وہاں توہین ِ مذہب زندگی اور موت کا مسئلۂ کیوں بن چکا ہے ؟
ہم مسلسل ایک جھوٹی دلیل ، جس کے پیچھے نہ کوئی ثبوت ہے ، نہ منطق، سن رہے ہیںکہ توہین کے الزام میں ماورائے عدالت ہلاکتیں اس لئے ہوتی ہیں کیونکہ قانون اپنا راستہ اختیار نہیں کرتا۔اس دلیل کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ توہین ِ مذہب سے بھڑکے ہوتے ہیں، وہ اُن لوگوں کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے جو اس رویے کو پسند نہیں کرتے ۔ اشتعال اور منطق ایک ترازو پر نہیں تلتے ۔ (ممتاز قادری کیس کے دوران اُس کے وکلا، جن میں اعلیٰ عدلیہ کے کچھ سابق جج بھی شامل تھے ، کا دعویٰ تھا کہ توہین کے قانون میں تبدیلی کی دلیل دینا بھی توہین ہی ہے ، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس دلیل کو رد کردیا تھا)۔ پاکستان میں توہین کے قانون کے منفی استعمال کو روکنے کے لئے اس میں ترمیم کرنے پر اتفاق ِ رائے موجود نہیں۔ اس کی بجائے اس موضوع پر بحث کرنے کو سختی سے روک دینے کا رجحان مزیدشدت اختیار کرتا جارہا ہے ، جیسا کہ سلمان تاثیر اور راشد رحمان کا قتل ۔ پر تشدد مافیا اتنا موثر اور منظم ہے کہ اس کی پھیلائی ہوئی خوف کی فضا میں کوئی بھی زبان کو زحمت دے کر اپنا سر تن سے جدا نہیں کرانا چاہتا۔
تاہم یہ ماضی تھا۔ مشال خان کا قتل اتنا سفاکانہ اور گھنائونا تھا کہ اس نے ہمارے خوف سے سہمے ہوئے بے حس ضمیر کے منہ پر زناٹے کا تھپڑ رسید کرتے ہوئے اسے بیدار کردیا ہے ۔ بہیمانہ ہلاکت کے صدمے نے ممنوع موضوع پر بات کرنے کی کھڑکی کھول دی ہے ۔ ممتاز قادری کیس (PLD 2016 SC 17) میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے ۔۔۔’’اﷲ تعالیٰ نے قرآن ِ پاک میں حکم دیا ہے کہ جب اہل ایمان کوئی خبر سنیں یا اُن تک کوئی معلومات پہنچے تو وہ اس پر عمل کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرلیا کریں تاکہ وہ (اگر خبر یا معلومات غلط ہیں) نقصان سے محفوظ رہیں۔‘‘ اس کے بعد سپریم کورٹ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 کا حوالہ دیتی ہے ۔۔۔’’اے اہل ایمان، اگرکوئی شخص تم تک کوئی خبر پہنچائے تو اس کی تصدیق کرلیا کرو ، مبادا تم کچھ لوگوں کو لاعلمی کی بنیاد پر نقصان پہنچا دواور پھر تمہیں اپنے کیے پر افسوس کرنا پڑے ۔‘‘
مذہب سے متعلق قوانین کے غلط استعمال ، اور ان کی اصلاح کی ضرورت پر بحث کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کہتی ہے ۔۔۔’’ایک جمہوری معاشرے میں شہریوں کے پا س اختلاف کرنے ،بحث کرنے ، یا یہ کہنے کہ ریاست نے فلاں قانون درست نہیں بنایا، چنانچہ اس کے فلاں منفی پہلو کا تدارک کرنے کے لئے اس میں اصلاح درکار ہے ، یا ریاست کے نافذکرہ قانون کے منفی استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ مذہب کے حوالے سے انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں بہتری لانے ، تاکہ ان کا بہتر طور پر نفاذ ہوسکے ، کا مطلب مذہب پر تنقید کرنا نہیں ۔‘‘فاضل عدالت مزید کہتی ہے ۔۔۔’’یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذہب سے متعلق قوانین میں اصلاح کے مطالبے کا کسی بھی سنجیدہ حلقے کی طرف سے آنے کا مقصد ایسے قوانین کے غلط استعمال کو روکنا ہوسکتا ہے ، چنانچہ پی پی سی کے سیکشن 295-C میں بہتر ی لانے کا مطالبہ کسی طور قابل ِ اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔‘‘توہین کے قانون کے غلط استعمال کا اعتراف کرتے ہوئے سپریم کورٹ کہتی ہے ۔۔۔’’یہ ایک افسوس ناک، لیکن ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ توہین کے الزام کے تحت دائر کردہ زیادہ تر کیسز میں مذموم مقاصد کے لئے جھوٹے الزامات لگائے جاتے رہے ، کیونکہ اس قانون کا غلط استعمال روکنے کے لئے سیف گارڈ موجود نہیں۔ چنانچہ اپنے کسی مفاد کے لئے جب کسی شخص پر توہین کا جھوٹا الزام لگادیا جاتا ہے تو اُسے ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔ ‘‘آگے چل کر عدالت ِ عالیہ واضح الفاظ میں نتیجہ نکالتی ہے ۔۔۔’’ ملکی قانون کسی شخص کو اجازت نہیں دیتا وہ خود ہی مدعی، استغاثہ، منصف اور جلاد کاکردار ادا کرے ۔‘‘
اس سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ قانون شہریوں کو ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے توہین کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن یہ اپنی موجودہ حالت میں آسانی سے غلط استعمال ہوسکتا ہے ۔ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ حالیہ عشروں کے دوران توہین کے الزامات اور ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ انصاف کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، لیکن خوف کی وجہ سے سب مہر بلب تھے ۔ اب مشال خان کے لرزہ خیز قتل ،سوشل میڈیا پر اُس کے معقول اور فکر انگیز پیغامات، غمزدہ خاندان کے وقار، اُس کے والد کا پرسکون اور پر اعتماد انداز اور جس طریقے سے اُسے ایک منصوبے کے تحت گھیر کر ماراگیا، اس نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر خواب ِ غفلت سے جگا دیا ہے ۔ ہم تصور کرنے لگے ہیں کہ اگر اب بھی ہم چپ رہے تو یہ سب کچھ ہمارے بچوں کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے ۔ قومی اسمبلی نے مشال خان کے سفاکانہ قتل کی مذمت کے لئے ایک متفقہ قرار داد منظور کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ توہین کے قانون کے غلط استعمال اور ہجوم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے رجحان کو روکنے کے لئے سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے ۔ اس روح فرسا واقعہ نے مشتعل ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے کے حامیوں کی بھی زبان بند کردی ہے(اگرچہ مولانا فضل الرحمن اور کچھ دوسرے افراد نے دعویٰ کیا کہ یہ قرارداد اسلام کو کمزور کرنے کی مغربی سازش ہے )۔
ان واقعات کا حتمی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ہجوم کی طرف سے منظم تشدد کا استعمال معاشرے ، علاقے اور سیاسی عمل پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش ہے ۔ بپھرے ہوئے ہجوم کی طرف سے کیا جانے والا وحشیانہ تشدد عام شہریوں کو خوف زدہ کردیتا ہے ۔ مذہبی جذبات ابھار کر سیاسی دکان چمکانے والے ایسے حربوں سے عوام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس عمل میں خوف اور نفرت سیاسی بیانیے کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اگر عام شہری اس خوف کو جھٹک کر کھڑے ہوجائیں اور مذہب کے نام پر کیے جانے والے تشدد اور توہین کے قانون کے غلط استعمال پر رائے ظاہر کرنے کا حوصلہ پیدا کریں تویہ عمل مذہبی اشرافیہ کی طاقت کم کردے گا۔ لیکن یاد رہے ، کوئی بھی لڑے بغیر کسی کو اپنا علاقہ فتح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مشال خان کے قتل نے ہمیں اُس سے کہیں زیادہ خوف زدہ کردیا ہے جتنا تحریک طالبان پاکستان اور سلمان تاثیر کے قتل نے کیا تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کا بس ہم پر اُس وقت چل سکتا تھا جب وہ پاکستان کو فتح کرلیتے ۔ اُن کا خوف ایک غیر ملکی حملہ آور طاقت کی طرح تھا جس نے شہریوں تک پہنچنے سے پہلے ملک کی دفاعی فورسز کے ساتھ لڑنا تھا ۔ سلمان تاثیر بھی کوئی عام شہری نہ تھا۔ و ہ ایک بڑے صوبے کا گورنر تھا، اور پھر وہ بے دھڑک ایک کمزور مسیحی عورت کی حمایت میں کھڑا ہوگیا تھا۔ جہاں تک مشال خان کا تعلق ہے تو وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق اور مثبت سوچ رکھنے والا دلیر لڑکا تھا۔ اُس کی کفالت کرنے اور تعلیم دلانے کے لئے اُس کے والد کو جدوجہد کرنا پڑی تھی۔
آخر کار جب اُس سادہ دل اور صاف گو والد کی آنکھوں میں امید کی چمک گہری ہونے لگی تھی تو یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے اس کے بازو کو توڑ ڈالا۔ یہ طالبان کا حملہ یا سلمان تاثیر کا واقعہ نہیں، سفاکیت کی یہ آگ ہم سب کی آنکھوں کی روشنی گل کرسکتی ہے ۔ وہ اپنے دوستوں کے درمیان کھڑا تھا، وہ اسی معاشرے کا حصہ تھا، لیکن منافقت اور نفرت سے بھرا ہو ا یہ معاشرہ کسی بھی وقت زندگی کا چراغ گل کرسکتا ہے ۔ مشال کے قتل نے ہم سب کو خوفزدہ کردیا ہے ۔
ہمیں توہین کے قوانین کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ توہین کا مقدمہ درج کرنے کا اختیار صرف ایس پی کے پاس ہو، اور گرفتاری کے لئے سیشن جج کے حکم نامے کی ضرورت ہو۔ اس کے علاوہ مشتعل افراد کے ایک بپھرے ہوئے ہجوم کی شکل دھارنے کے عمل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے مشال کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ماضی میں آدم خور اپنے شکارکے ساتھ کرتے تھے۔ ہمیں اس درندگی سے آگے بڑھ کر انسانوں کے معاشرے میں زندہ رہنا سیکھنا ہوگا۔


.
تازہ ترین