• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کا فیصلہ آنے میں ابھی کچھ دن باقی تھے کہ ایک فاضل جج صاحب کا بیان آگیا کہ اس دفعہ ایک ایسا تاریخی فیصلہ آئے گا جو صدیو ں تک یاد رکھا جائے گا۔ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ یہ بیان اس وقت آیا جب چینلوں پر اینکروں نے اینکر گردی کی حد ہی کر دی تھی۔ روز پروگرام میںعدالت لگتی، روز جھوٹے سچے گواہ بلائے جاتے، روز پیشیاں ہوتیں، روز کوئی وکیل صفائی کا کردار نبھاتا اور کوئی استغاثہ کے فرائض سنبھال لیتا۔ ہر روز اقبالی بیان لئے جاتے ، ہر روزمن پسند حربوں سے تفتیش ہوتی اور قریبا روز ہی فیصلے سنا دیئے جاتے۔ ان فیصلوں کی عمومی نوعیت دو طرح کی تھی۔ ایک طرح کی مخلوق وزیراعظم کو کرپشن کاسرغنہ قرار دیتی تھی۔ چوری پکڑے جانے پر مذمت کرتی تھی ، اخلاقی حدود کا حوالہ سناتی تھی اور دوسری قسم کے میڈیائی جج وہ تھے جو وزیراعظم کوفرشتہ ثابت کر رہے تھے۔جنہیں وزیر اعظم کے چہرے پر اس کڑے وقت میں بھی نور پھیلتا نظر آتا تھا۔ جو وزیر اعظم کی مسکراہٹوں پر فدا ہو ہو جاتے تھے۔ان دونوں طرح کے اینکرز کی جنگ میں حقائق اور سچائی کا جو قتل عام ہوا اسکی مثا ل نہیں ملتی۔ اس بات کوماننے میں کوئی باک نہیں کہ اس ہیجانی کیفیت میں بہت کم صحافی ، اصل صحافت پر قائم رہ سکے۔ یہ چند لوگ وہ تھے جو اس ابتلا کے منظر میں بھی حقائق کی بات کرتے رہے۔ ثبوتوں سے الزامات کی حقیقت کو پرکھتے رہے۔ ایسے لوگ کم ہیں مگر جو ہیں، انہی کے نام اور کام کی وجہ سے صحافت کا وقار قائم ہے۔باقی ماندہ صحافیوں اور اینکر حضرات کا علاج اسی صورت میں ممکن ہے کہ جس طرح الیکشن کے بعد سیاستدانوں کے بیانات ان کا تمسخر اڑانے کے لئے اسکرینوں پر بار بار دکھائے جاتے ہیں اسی طرح ان اینکروں کی بے معنی پیش گوئیوں اور بے مقصد بریکنگ نیوز والے پروگرام بھی پاناما کے فیصلے کے بعد اسکرینوں پر عبرت کے نشان کے طور پر دکھائے جائیں۔
سچ بات تو یہ ہے کہ پاناما کیس میں اب تک جو کچھ ہوا وہ عین جمہوریت ہے۔ کسی بھی ملک کے وزیر اعظم کی کرپشن کے بارے میں اگر اپوزیشن کو شائبہ بھی ہو تو احتجاج ان کا بنیادی حق ہے۔ وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ بھی ایسی صورت حال میں غیر آئینی نہیں ہے۔ دوسری جانب جب وزیر اعظم پر ایسے الزامات لگتے ہیں جو کہ انکے خیال میں صرف الزامات ہوتے ہیں، تو ایوان میں اپنی صفائی پیش کرنا اس وزیر اعظم کا حق ہے۔ عوام کے سامنے جواب دینا اس کا فرض ہے۔ اپنی آمدنی کی ایک ایک پائی کا حساب دینا اس پر لازم ہے۔ اپنی ساری نسلوں کو خود احتساب کے لئے پیش کرنا اس کا آئینی فریضہ ہے۔ اپوزیشن کہے تو انکوائری کمیٹی بننی چاہئے، اپوزیشن مطالبہ کرے تو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے۔اپوزیشن کہے تو اعلیٰ عدلیہ کا بنچ تحقیق کرے۔ یہ سب عین جمہوریت ہے۔ اس میں کوئی بھی غلط بات نہیں ہے۔ غلطی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب دھرنا دینے کا مقصد یہ ہو کہ نادیدہ قوتوں کی مدد سے نظام کی بساط پلٹ دی جائے۔ جب لاک ڈائون کی منصوبہ بندی کے پیش نظردھونس اور دھاندلی سے اپنی چوہدراہٹ منوانا ہو۔ جب قومی اسمبلی کی تضحیک مقصد ہو، جب ایوان کی توہین ارادہ ہو، جب اداروں کو ترغیب کا ارادہ ہو، تو یہ غلطی ہی نہیں فاش غلطی ہے۔ اس ہولناک منصوبے کی کامیابی کا نقصان بظاہر تو ایک شخص یا جماعت کو ہونا تھا لیکن درحقیقت اسی سازش کی کامیابی کی صورت میں پورے ملک کو ، پوری قوم کو دہائیوں اس غلطی کی سزا بھگتنی تھی۔
اب جو پاناما کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے تو بہت سے منہ کالے ہو گئے ہیں، بہت سی زبانیں جل گئی ہیں، بہت سوں کے کرتوت سامنے آگئے ہیں۔ عدالت نے نہ توشریف کو وزارت عظمی سے بے دخل کیا اور نہ ان کو چند احباب کی خواہش کے مطابق عمر قید بامشقت کا اعلان کیا۔ نہ تو کابینہ کو کوڑے لگانے کا حکم دیا نہ ہی حکمران جماعت کی سیاست پر پابندی لگا دی۔ نہ وزیر اعظم کی آل اولاد کا گلی کوچوں میں احتساب کا موقع فراہم کیا نہ ہی کوئی تضحیک آمیز ریمارکس دیئے۔ دوسری جانب عدالت نے نہ تو عمران خان کو ایک جھوٹے الزام کی مد میں گرفتاری کا حکم دیا نہ ہی اپوزیشن کی سرکوبی کا کوئی سلسلہ نظر آیا۔ نہ تو ثبوتوں کی عدم دستیابی کو عدلیہ کے لئے توہین آمیز قرار دیا نہ کرپشن کے جوابی الزامات کے سلسلے میں اپوزیشن پر کیس کھول دیئے گئے۔ فاضل عدالت نے شروع سے آخر تک ثبوت کی فراہمی کی بات کی۔ جس میں دونوں فریقین بہت حد تک ناکام رہے۔ ایسے موقع پر کوئی جذباتی فیصلہ دینے کے بجائے عدالت عالیہ نے حق کی بات کی۔ ثبوتوں کی فراہمی کے لئے مزید وقت دے دیا گیا۔ انکوائری کمیشن بنا نے کی سفارش کر دی گئی۔ جو موجودہ صورت حال میں اس نازک مسئلے کا بہترین حل تھا۔ عدالتوں نے انصاف کا پرچم بلند کیا۔ عدل کی طرف رہنمائی کی۔ حق کی بات کی۔ جس پر عدلیہ لائق تحسین ہے۔
بات شروع ہوئی تھی ایک فاضل جج کے بیان سے جنہوں نے علی الاعلان کہا تھا کہ ایک ایسا فیصلہ آئے گا جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔فیصلہ سننے کے بعد بہت دیر تک لوگ یہ سوچتے رہے کہ اس فیصلے میں ایسی کیا بات تھی جو صدیاں اس عام سی بات کو یاد رکھیںگی۔ یہ تو نوشتہ دیوار تھا۔ یہ حق تھا اور یہی ہونا تھا تو پھر ایسے بیان کی ضرورت کیوں پڑی۔ بہت سوچ بچار کے بعد لوگ اس بات کو سمجھے کہ اس فیصلے میں کچھ ندرتیں ایسی تھیں کہ جو اس ملک کی تاریخ میں صدیوں یاد رکھی جائیں گی۔یہ فیصلہ اس ملک کی عدالتی تاریخ سے بالکل برعکس ہے ۔ نہ تو اس فیصلے کے نتیجے میں صرف الزامات کی بنیاد پر کسی منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا اور نہ کسی کا عدالتی قتل کیا گیا۔ نہ عوام کے ووٹوں کی حرمت کو پامال کیا گیا نہ عوام کے محبوب لیڈر کوپھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ نہ تو اقتدار میں خفیہ راستے سے داخل ہونے والوں کی راہ ہموار کی گئی نہ ڈکٹیٹر شپ کی نظریہ ضرورت کے تحت حمایت کی گئی۔ نہ اس بحرانی کیفیت میں فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی گئی نہ جمہوریت کی تذلیل کی گئی۔یہ باتیں آپ کو تلخ لگ رہی ہوں گی مگر یہ سب باتیں سچ ہیں۔ اس ملک کی تاریخ ہیں۔اس ملک کا ماضی ہیں۔
اب جو انکوائری کمیشن بن گیا ہے اس پر اعتماد کرنا چاہئے ،اس کا احترام کرنا چاہئے۔ جو بات اس فیصلے سے ہم نے سیکھی ہے وہ لائق تحسین ہے۔اس فیصلے سے ہم نے سیکھا ہے کہ ہر شخص جواب دہ ہے۔ ہر شخص سوال کر سکتا ہے۔جھوٹ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ بغیر ثبوت کے الزام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ ہیجان پیدا کرنے سے نظام کو شکست نہیں ہونی چاہئے۔یہ سارے سبق ہمارے لئے نئے ہیںمگر یہ بات ایسی ہے کہ اس کو صدیوں تک یاد رکھنا اس قوم کے لئے ضروری ہے۔
قومیں انصاف کے نظام سے نمو پاتی ہیں۔ نظام ، اقوام کی قوت کو ظاہر کرتے ہیں۔نظام کی شکست قوم کی شکست ہوتی ہے۔ جس سے نفرت اور شدت کو فرو غ ملتا ہے۔ اس شدت کی جڑیں سارے معاشرے میں سرایت کرتی ہیں۔ پھر مشال خان جیسے بچے نفرت کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ اور لاشوں کو ٹھڈے مارنے والے ڈکٹیٹروں کے نظام کے وارث بن کر سارے معاشرے کا تمسخر اڑاتے ہیں۔صدیوں تک ہمیں اس دور نجس کی یاد دلاتے ہیں۔

.
تازہ ترین