• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے دوست خالد مسعود کا کہنا ہی درست ہے کہ پاناما کیس میں اصل فائدہ تو مٹھائی بیچنے والوںکا ہوا ہے باقی فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں آپ فیس بک پر چلنے والی میرا کی ایک ویڈیو دیکھ لیں جس میں وہ لہک لہک کر گا رہی ہیں ’’یہ پاناما ، پاناما کیا ہے؟‘‘ ۔جس پپو کے پاس ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے متوالے ٹنوں کے حساب سے مٹھائیاں بانٹ رہےہیں اس کے بارے میں ہمارے ایک اور دوست سہیل اقبال بھٹی کہتے ہیں کہ شریف حکومت نے نوازشریف اور ان کے بچوں کو بچانے کے لئے قانونی ٹیم پر شاید 33 کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جس کی تفصیلات وفاقی محتسب نے مانگی مگر حکومت نے تفصیل دینے سے انکار کردیا۔ آگے چل کر وہ بتاتے ہیں کہ وکلا کی یہ بھاری فیسیں براہ راست ادا کرنے کی بجائے اس رقم کو مختلف محکموں میں ایڈجسٹ کردیا گیا اور قیام کے اخراجات وزیراعظم سیکرٹریٹ نے دیئے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو عمران خان اور سراج الحق صاحب کو وزیراعظم کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرا دینا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج حضرات تو پہلے ہی اپنے فیصلے میں کہہ چکے ہیں کہ نوازشریف صادق اور امین نہیں ہیں باقی تین ججوں نے اگرچہ ان کی جائیدادوں اور منی ٹریل کےحوالے سے شک کا اظہار کیا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے وزرا، مشیران اور سپورٹرز بضد ہیںکہ ان کے حکمراں پاس ہوگئے ہیں۔ یہ یقین آدمی کو تبھی آسکتا ہے کہ جب اسے یقین ہو کہ اب تو معاملہ JIT کے سپرد ہےاور یہ ادارے تو ہیں ہی اپنے ماتحت سو یہ کیا فیصلہ کریں گے ہمارے خلاف۔
ہم بات کر رہے تھے وزیراعظم کے وکلا کی فیسوں کے حوالے سے تو سہیل اقبال بھٹی کہتےہیں کہ سپریم کورٹ کی جو کارروائی 126 روز تک جاری رہے اس میں نوازشریف اور ان کے بچوں کے دفاع اور ممکنہ سزا سے بچنے کے لئے جو قانونی ماہرین کی ٹیم بنائی گئی اور جس میں نوازشریف کے وکیل سلمان اکرم بٹ، مخدوم علی خان، حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ، اور مریم نواز کے وکیل شاہد حامد شامل ہیں تو قانونی عمل جاری رکھنے اور دیگر اخراجات کی مد میں کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے دیئے گئے ہیں۔ یہ الزام تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس نے وزیراعظم ہائوس کو ایک خط لکھ کر تفصیل لینے کےلئے لگایا۔ وزیراعظم ہائوس سے دوٹوک انکار کے بعد عندلیب عباس نے وفاقی محتسب سے رجوع کیا تاکہ پتہ چلے کہ وزیراعظم، ان کے بچوں اور اسحاق ڈار صاحب کو بچانے کے لئے کتنی رقم ادا کی گئی ہے اور یہ کہ یہ رقم کس نے ادا کی ہے؟ عندلیب عباس کی اس درخواست پر وزارت ِ قانون نے رائے دی ہے کہ وزیراعظم آفس پبلک باڈی نہیں ہے لہٰذا معلومات تک رسائی نہیں دی جاسکتی۔ اب جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر یہ الزامات اٹھ رہےہیں تو لازم ہے کہ وزارت ِ قانون یا وزیراعظم آفس ان الزامات کا جواب دے اور نواز شریف اور ان کے بچوں پر بھی لازم ہے کہ عندلیب عباس کے ان سوالات کا خاطرخواہ جواب دیں کہ وکلا کوکتنی فیس دی گئی اور کہاں سے ادائیگی ہوئی۔ وگرنہ تو پھر.....‘‘
خیر ہم بات کر رہے تھے اس پپو کے پاس ہونے کی جس کے بارے میں شیخ رشید کا کہنا خوب ہے کہ پپو دو مضامین میں فیل ہے جبکہ تین میں اس کی سپلی آئی ہے۔ اس لئے کہ اس پپو نے و ہ سوالات جن کے جواب ضروری ہیں ان کے لئے صفحہ خالی چھوڑ دیا ہے۔ یہ سوال کیا ہیں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب اور جسٹس گلزار صاحب کے اختلافی بیان پڑھ لیں۔ انہی نے پپو کے جواب والی کاپی پہ لکھا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف صادق اور امین نہیں رہے۔ اس لئے انہیں فیل قرار دیا جاناچاہئے۔ ان کے بقول وزیراعظم لندن کی جائیداد کی وضاحت نہیں کرسکے۔ اسی طرح اسحاق ڈار پر بھی الزامات جو منی لانڈرنگ کے ہیں، ختم نہیں ہوئے۔ اب اگر عوامی عہدیدار کی حیثیت سے نواز شریف قوم اور عدالت ِ عظمیٰ کو لندن کی جائیداد کے بارے میں صحیح حقائق سے آگاہ کرنے میں بری طرح ناکام رہےہیں تو انہیں پاس کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
پپو پاس ہو جائے گا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تو JIT کی رپورٹ کے بعد پھر سے چلنے والے مقدمے میں چلے گا اس لئے کہ JIT کی رپورٹ پھر سے ایک بنچ کے سامنے پیش ہوگی۔ یہ بھی افواہ ہے کہ اسی بنچ میں دو اختلافی نوٹ لکھنے والے فاضل جج نہیں ہوں گے۔ لیکن شاید JIT کی حمایت کرنے والے تینوںجج حضرات شامل ہوں گے۔ شاید اسی لئے نواز شریف صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کیاہے‘‘ اور یہ کہ ’’JIT میں بھی اپنی بے گناہی ثابت کریںگے‘‘ یہ بیان دیتے ہوئے نواز شریف صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار کے اختلافی نوٹ ضرور پڑھ لیتے پھر اپنے ضمیر کی روشنی میں یہ بیان دیتے کہ کیا وہ واقعی صادق اور امین ہیں؟
بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے عدالت کا یہ فیصلہ جس میں اگرچہ انہیں تمام الزامات سےبری نہیں قرار دیا گیا، صرف یہ ہوا کہ ان الزامات کی کچھ اور تفصیل جاننے کے لئے ایک JIT بنانے کا کہا گیا ہے کو وزیراعظم ہائوس میں سنا۔ پھر شکرانے کے نوافل ادا کئے۔
مجھے یہاں انڈونیشیا کے ایک وزیر کا بیان یاد آ رہا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان اپنی خوراک کے بارے میں تو بہت اہتمام کرتے ہیں کہ اس میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو لیکن ایسا اہتمام ہم اپنی آمدن اور دیگر ذرائع کے بارے میں نہیں کرتے۔



.
تازہ ترین