• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایک اہم تاریخی دوراہےپرکھڑاہے۔کچھ معاملات میں اگرپاکستان پیشرفت کررہاہےتو دوسری طرف بہت سےمعاملات میں تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے اور بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ 2001ء میں جب میں سائنس اورٹیکنالوجی کاوفاقی وزیر تھا اس وقت پاکستان نے آئی ٹی اورموبائل ٹیلی کام سیکٹرمیں شاندارپیشرفت ہوئی جس کہ وجہ وہ اقدامات تھےجو متعارف کرائے گئےتھے۔ آج ہماری آئی ٹی کی صنعت میں2001ء کے مقابلے میں سوگنا یعنی 30لاکھ ڈالر سالانہ سے 3 ارب ڈالر سالانہ تک کا اضافہ ہواہے۔ اس اضافے کی وجہ دیگراقدامات کے ساتھ ساتھ ہماری طرف سے IT کی صنعت کو 15 سال کےلئے دی گئی ٹیکس کی چھوٹ تھی۔اسی طرح موبائل ٹیلیفون کے شعبے میں بھی کافی ترقی ہوئی ہےجس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ 2001 ء میں ملک بھر میں موبائل فون کی کل تعداد صرف تین لاکھ تھی جو آج بڑھ کرتقریبا 15 کروڑ (450 گنا ) ہو گئی ہے۔اس کی وجہ بھی 2001ء میں ہماری جانب سے کیا گیا ایک سمجھدار فیصلہ تھا کہ کالز وصول کرنے والے افراد سے معاوضہ نہ لیا جائے اور کالنگ پارٹی ادائیگی کاآغاز کیا۔اس کے ساتھ ایک نئی موبائل کمپنی کوکم نرخوں پر مارکیٹ میں مقابلے کی فضاء قائم کرنے کیلئے متعارف کرایا گیا۔.ان اقدامات سے موبائل فون میں اتنی تیزی سے ترقی ہوئی کہ اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے ساتھ سب سے اہم تبدیلی ہم نےاعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ذریعےجامعات میںتربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کی جس کے نتیجے میں 2008 تک ہماری کئی جامعات کا شمار دنیا کی چوٹی کی 250، 300، 400 اور 500 جامعات میں ہو گیا تھا۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں کی طرف سے ایک اہم قدم آسٹریا اور اٹلی کے تعاون سے بالترتیب ہری پور اور لاہور میں غیر ملکی انجینئرنگ جامعات قائم کرنا ہے۔ ان دونوں انجینئر نگ جامعات کے لئے معروف آسٹریا اور اٹلی کی جامعات کےکنسورشیم قائم کئے گئے ہیں۔یہ دنیا میں سب سے پہلے اور انوکھے " کئی جامعاتی ڈگری" فراہم کرنے والے ادارے ہو نگے جس میں کئی غیر ملکی جامعات کی طرف سے ڈگریاں دی جائیں گی۔ یہ اس طرح ممکن ہو گا کہ ہر شعبے کی نگرانی ایک مختلف غیر ملکی جامعہ کرے گی اور اس شعبے کے طالب علموں کو اسی غیر ملکی جا معہ سے ڈگری جاری کی جائیگی۔اس قسم کی جامعات کے قیام، کا انوکھا خیال 2004 ءمیں میرے ذہن میں آیا تھا جس پر 2006/2007 ء ح کے دوران عمل پیرا ہونے کی مکمل کوشش ہوئی تھی لیکن سابقہ حکومت نےجامعات کے عین افتتاح کےوقت اس پروگرام کو روک دیا تھاجس کی وجہ سے ہمیں غیر ملکی شراکت دار ممالک سے شدید ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔اب ہری پور اور لاہور میں قائم کی جانے والی یہ دونوں جامعات انشاءاللہ اگلے سال سے کام شروع کردیں گی اور پاکستان میں اعلیٰ ٹیکنالوجی مصنوعات کی صنعتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی۔ تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ہماری برآمدات میں گزشتہ 2 سالوں میں تقریبا 12 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن پہلو قرضوں کابڑھتا ہوا بوجھ ہے۔ سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتوں نے گزشتہ آٹھ سال میں بین الاقوامی فنڈنگ ایجنسیوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لئے ہیں لیکن ان فنڈز کی سرمایہ کاری زیادہ تر ایسےمنصوبوں میں کی گئی ہے جس سے ہم قرض ادا نہیں کر سکتے۔قومی قرضوں کا بوجھ گزشتہ 8 سالوں میں تقریباً دگنا ہو گیا ہے۔بشمول بیرونی قرضے اور واجبات میں تقریبا 33 ارب ڈالرکا اضافہ ہوا ہے، اور رواں سال کے 4ارب ڈالر ملا کر کل 81 ارب ڈالر قرضوں کے بوجھ تلے ہم دبے ہونگے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا تو ہمارے پاس تنخواہیں دینے کے لئے بھی رقم نہیں ہو گی اور مجبور ہو کر ہمیں اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے۔
ہماری معیشت کا اہم ترین شعبہ زراعت ہے۔ لیکن گزشتہ 3سالوں کے دوران زرعی پیداوار میں صرف تقریبا ً 1.6فیصد کی اوسط سےاضافہ ہوا ہے جو کہ ہماری بڑھتی ہو ئی آبادی کے لئے ناکافی ہے۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کو ہزاروں چھوٹے بند تعمیر کر کے پورا کیا جا سکتا تھا تاکہ آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاسکے لیکن اس اہم میدان میں بھی افسوس ہم سو رہے ہیں۔ یہاں ہم بھارت سے سیکھ سکتے ہیں۔بھارت بھر میں چھوٹے بڑے سینکڑوں ہزاروں بندوں کی تعمیر مسلسل بھارتی حکومتوں کی طویل مدتی نقطہ نظر اور دور اندیشی کی عکاسی کرتی ہے۔ ان بندوں کی تعمیر کا مقصد زرعی پیداوار میں اضافےکے ذریعے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوراک فراہم کرنا ہے۔کرہ ارض میں بڑھتی ہوئی گرمی اور بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کی وجہ سے ہماری بقا داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کو آئین کی اٹھارویں ترمیم کی دفعات منسوخ کرنے پر غور کرنا چاہئےجس کے تحت کافی اضافی فنڈز صوبوں کو منتقل ہو گئے تھے، ان فنڈز کا استعمال کر کےملک بھر میں چھوٹے اور بڑے ہزاروں بندتعمیر کئے جانے چاہئیں تاکہ ہم مؤثر طریقے سے غربت اور بھوک سے نمٹ سکیں۔ آج پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ پانی ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
اس منظر نامے میں ایک امید کی کرن چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ہےبشرطیکہ ہم مؤثر طریقے سے ان منصوبوں پر عمل کریں۔ ضروری ہے کہ پیشہ ور ماہرین کی ٹیمیں بنائی جائیں. جو کہ CPEC پروگرام کے مختلف پہلوؤں پرسمجھداری کے ساتھ عمل درآمد کر سکیں۔ اس کے لئے ہمیں کئی ہزار ہونہار نوجوانوں کو چینی حکومت کی مشاورت سے چینی اداروں اور جامعات میں منتخب شعبوں میں 6 ماہ کی تربیت کے لئے بھیجنےکی فوری ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ CPECکو محض چین سےسامان لانے یالے جانے کے لئے ایک سڑک کےطور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ اعلیٰ ٹیکنالوجی سامان کی تیاری کے لئے ایک مرکز کی حیثیت اختیار کرنا چاہئے۔ جیسے کہ انجینئرنگ مصنوعات، دواسازی، بایو ٹیکنالوجی مصنوعات،برقیات، زراعت، گاڑیوں کی صنعت وغیرہ۔چینی اور دیگر نجی صنعت کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور سرمایہ کاری کرنے کے لئے 15 سال کے ٹیکس کی چھوٹ دی جانی چاہئے۔ہر ایک صنعتی حلقے میں(1) ایک مخصوص میدان میں اعلی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی برآمد اور پیداوار کے لئے اعلی ٹیکنالوجی کی صنعتیں ہونی چاہئیں (2)ہر مخصوص صنعتی حلقےمیں اعلی تعلیم یافتہ تکنیکی ماہرین کی تکنیکی تربیتی مراکز کا قیام(3) ہر ایک صنعتی حلقے کی ترقی اور اسی شعبے سے متعلق جامعاتی تحقیقی مراکز قائم کئے جائیں (4) نئی کمپنیوں کی حاصلہ افزائی کیلئے ٹیکنالوجی پارکس قائم کئے جائیں جہاں نئی مصنوعات اور انکےنئے نمونے تیار کئے جائیں۔ 1970ء میں کوریا کی حکومت کی جانب سے جہازوں کی صنعتوں کے قیام، صنعتی مشینری، انجینئرنگ مصنوعات، برقیات، لوہے کے علاوہ دھاتیں، پیٹرو کیمیکلز اور کیمیکلز کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں کے قیام پر بھرپورتوجہ دی گئی، آج جنوبی کوریا کی ترقی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ انتہائی ہنر مندتکنیکی افرادی قوت فراہم کرنے کیلئے، کورین سائنس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی، کورین ایڈوانسڈ انسٹیٹیوٹ برائےسائنس اور ٹیکنالوجی، اور سیول نیشنل جامعہ قائم کی گئی۔
بارہ خصوصی تحقیقی ادارے بھی قائم کئے گئے تھے جو کہ نجی کمپنیوں کی شراکت سے صنعتی ٹیکنالوجی تیار کر سکیں۔کوریا میں نئے اور چھوٹےکاروبار کو فروغ دینے کے لئے نئی ٹیکنالوجی پر مبنی چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کے قیام میں مدد کرنے کیلئے 1997 میں ایک خاص قانون منظور کیا گیاتھا۔اس طرح کوریا جدت اورترقی کی جانب رواں دواں ہو گیا۔ اس اعلیٰ ٹیکنالوجی مینوفیکچرنگ اور قیمتی برآمدات کی ترقی پر خصوصی توجہ کے ساتھ وسیع تر معاشی، تجارتی اور صنعتی پالیسی اصلاحات نے 25 سال کے مختصر عرصے میں کوریا کوصنعتی دیو بنا دیا.
یہ ایک فوجی جنرل ( جنرل پارک) کی بصیرت انگیز قیادت کی بدولت ہوا۔ سنگاپور کی بھی اسی طرح کی ترقی کی کہانی ہےجیسے ملائیشیا اور چین کرتے ہیں۔ 2016 کے دوران چین نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے چھ لاکھ طلباکودنیا کی بہترین جامعات میں بھیجا اور اسی سال تقریبا پانچ لاکھ طلباغیر ملکی تربیت مکمل کرنے کے بعد چین واپس لوٹے۔
ہمارے رہنماؤں کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کاحقیقی سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہے۔ تعلیم کے میدان میں ہماری سرمایہ کاری ہماری جی ڈی پی کا مایوس کن 2 فیصد حصہ ہے جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری جی ڈی پی کا صرف 0.3فیصد حصہ ہے. جب تک ہم اعلیٰ معیار کی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو اپنے قومی ترقیاتی منصوبوں میں سب سے زیادہ ترجیح نہیں دیں گے تب تک ملک ترقی نہیں کرے گا۔اس کیلئے ایک صاحب بصیرت حکومت کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین