• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5رکنی لارجر بینچ نے 20اپریل 2017کو جو فیصلہ سنایا ہے، اس پر سب سے زیادہ اہم ردعمل لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا سامنے آیا ہے، جو مستقبل قریب میں پاکستان کی سیاست کا رخ موڑ سکتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم کو الٹی میٹم دیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر استعفیٰ دے دیں ورنہ وکلا کی ملک گیر احتجاجی تحریک کا سامنا کریں۔ یہ ملک میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کا تعلق سب سے بڑے صوبہ پنجاب سے ہے۔ اس کا یہ الٹی میٹم پاکستان کی سیاست کا ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا پاناما کیس پر ردعمل اجتماعی قومی دانش سے ہم آہنگ ہے۔ وزیر اعظم کو پاناما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوتے ہی استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان کے وزیر اعظم رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ فیصلے پر وزیر اعظم کا اپنا کوئی باقاعدہ ردعمل یا بیان سامنے نہیں آیا ہے، جس سے یہ واضح ہو کہ وزیر اعظم رہنے کے لئے ان کے پاس ٹھوس اخلاقی جواز موجود ہے۔ ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کے مختلف حلقوں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں نے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے دو سینئر ارکان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار احمد کے فیصلے کو تاریخ ساز قرار دیا ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے اور انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کر دیا جائے۔ 5 رکنی لارجر بینچ کے باقی تین جج صاحبان کے فیصلے کو اجتماعی قومی دانش وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لئے مہلت قرار دے رہی ہے۔ شریف خاندان کے لندن فلیٹس کے لئے رقم کہاں سے آئی ؟ اس کے لئے تین جج صاحبان کے فیصلے کے تحت جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کی تشکیل کو بھی بعض سیا سی جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔ آئینی اور قانونی ماہرین کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقے متفق ہیں کہ اس جے آئی ٹی کا کوئی فائدہ نہیں اور سپریم کورٹ تحقیقات کا کام بہت حد تک کر چکی ہے۔ اس کے بعد تحقیقات ایک لاحاصل مشق ہے۔ جے آئی ٹی کے افسران وزیر اعظم کے خلاف شواہد جمع کرنے کی جرات نہیں کریں گے۔ ان کا مینڈیٹ محدود ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ان ممالک سے معلومات حاصل نہیں کر سکتا، جو دنیا میں ٹیکس چوروں اور ناجائز دولت کمانے کیلئے پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اور سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے سے پہلے پاکستان میں حالات بہت تبدیل ہو جائیں گے اور 20 اپریل کے فیصلے پر سیاسی ردعمل کے خدو خال واضح ہو جائیں گے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے سبقت حاصل کی ہے۔ بار ایسوسی ایشن کے اس موقف کو درست تسلیم کرتا ہوں کہ وزیر اعظم کے خلاف چلنے والی تحریک 2007 ء کی عدلیہ کی آزادی کی تحریک سے بھی بڑی تحریک ہو گی اور سیاسی جماعتوں کو وکلا کے پیچھے چلنا پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور ان کی اتحادی سیاسی جماعتیں وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کیلئے تحریک چلانے کی بات کر رہی ہیں لیکن انہوں نے اس طرح واضح ’’ لائن آف ایکشن ‘‘ نہیں دی ہے، جو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے دے دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اگرچہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے الٹی میٹم سے پہلے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور اس ضمن میں سندھ میں احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں لیکن لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے میں دیر لگے گی کہ پیپلز پارٹی وزیر اعظم کو ہٹانے میںسنجیدہ ہے۔
پیپلز پارٹی نے پہلے پانی، بجلی اور گیس کی قلت کیخلاف وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا اور پاناما کیس کے فیصلے کے بعد استعفیٰ کا ایک اور مطالبہ شامل کر دیا۔ آصف علی زرداری زیرک سیاستدان ہیں۔ انہوں نے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد یہ محسوس کر لیا تھا کہ سیاسی حالات کا رخ کیا ہو گا لیکن میرے خیال میں حکوت کو کچھ وقت کیلئے بچانے کے فیصلے کے خلاف ردعمل کو تحریک کی شکل دینے میں پیپلز پارٹی کا کردار قائدانہ نہیں ہو گا۔ یہ تحریک وکلااور تحریک انصاف کے ہاتھوں میں جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک انتہائی اہم موڑ پر پاناما کیس کا فیصلہ آیا ہے اور اس فیصلے پر ردعمل کی وجہ سے پاکستان کی سیاست اس رخ پر جا سکتی ہے، جس کیلئے 70 سال سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ مستقبل قریب کے سیاسی منظر نامے میں وہ سیاسی قوتیں زیادہ ’’ متعلق ‘‘ (Relevant ) ہوں گی، جو حکومت کے خلاف تحریک میں آگے ہوں گی اور جو کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کے قیام کیلئے سنجیدگی سے کام کریں گی۔
ٍ اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی سیاسی راجونش (Dynasty ) بھی خطرے دے دوچار ہے۔ وزیر اعظم اگر کوئی سیاسی یا عوامی عہدہ رکھنے کے اہل نہیں رہتے تو نواز ڈائنیسٹی ( Dynasty ) کو بھٹو ڈائنیسٹی کی طرح سنبھالنا ممکن نہیںہو گا۔ اس پر مضبوط دلائل ہیں، جو کسی اور موقع پر بیان کروں گا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی زد میں دیگر سیاست دان بھی آئیں گے۔ بے پناہ دولت اور جائیدادوں کا حساب لینے کا جو سلسلہ چلا ہے، وہ بہت آگے تک جائے گا۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں دنیا میں نئی صف بندیا ہو رہی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے پاکستان عالمی سیاست میں انتہائی اہم اور مرکزی کردار کا حامل ہو گیا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی اس حوالے سے نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ یہاں کی پرانی صف بندیاں اور قومی سلامتی کی ڈاکٹرائنز ( Doctrines ) غیر متعلق ہو چکی ہے۔ زیادہ شفافیت، دیانت داری، میرٹ اور گڈ گورننس کے بغیر اب پاکستان کو چلانا ممکن نہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ دیانت دار، شریف اور اہل دانش سیاست میں آگے آئیں۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے شرفاء سیاست میں نہیں آسکتے تھے۔ کرپشن، اقربا پروری میرٹ کا قتل، سیاسی بادشاہت اور درباری کلچر نے پاکستان کو تیسری دنیا کی انتہائی خراب جمہوری سیاست میں جکڑ لیا تھا اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کبھی ایک مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری ملک نہیں بن سکے گا لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ صرف روشنی کی کرن ہی نہیں بلکہ ایک نئی صبح نمودار ہونے کی نوید ہے۔ اب لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ خلق خدا کا حقیقی راج قائم ہو۔ سول سوسائٹی، ترقی پسند اور دانشور حلقے آگے آئیں اور ان سیاسی جماعتوں اور قوتوں کا ساتھ دیں جو کرپشن سے پاک اور میرٹ اور انصاف پر مبنی جمہوری معاشرے کے قیام کیلئے کوششیں کر رہی ہیں۔

.
تازہ ترین