• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر سپریم کورٹ کے معزز پانچ رکنی بنچ نے پاناما دستاویزات کے حوالے سے وہ فیصلہ سنا ہی دیا جس کا قوم کو شدت سے انتظار تھا، پاکستان میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے پورا ایک سال پاناماایشو کو زندگی اور موت کا مسئلہ بناتے ہوئے سیاسی ہنگاموں کی نذر کئے رکھا، میڈیا پر بھی پورے سال پاناما ہی چھایا رہا، جہاں ایک طرف اپوزیشن جماعتیں اپنی تمام تر توانائیاںپاناما ایشو پرخرچ کرتی نظر آئیں وہیں موجودہ وزیراعظم نے اپنی تین نسلوں کو احتساب کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے روبرو پیش کردیا۔نظا م ِ عدل میں ہمیشہ قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ٹھوس دلائل اور ثبوت کی بناپرفیصلہ دیاجاتا ہے، سپریم کورٹ کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے اور یہی وجہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا باعث بنی ہے، یہ جے آئی ٹی حکومت نہیں بلکہ سپریم کورٹ آرٹیکل 10اے کے تحت بنارہی ہے۔ میرے خیال میں پاناما پیپرز چوری شدہ غیرمصدقہ دستاویزات ہیں جن کی تحقیقات کرانا ناگزیرہے، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی معزز بنچ کا فیصلہ سب کیلئے قابل قبول ہونا چاہئے اور اب جبکہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی تشکیل دے رہی ہیں، عمران خان اور آصف زرداری کی حکومت مخالف پریس کانفرنسیں سمجھ سے بالاتر ہیں، غیریقینی سیاسی صورتحال پیدا ہونے سے ملک و قوم کا جومسلسل نقصان کیا جارہاہے اسکے ذمہ داران کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔دنیا بھر میں سیاسی بحران کا باعث بننے والے پاناما پیپرز کا اجرا ہی نہایت مشکوک ماحول میں ہوا جب ایک نامعلوم شخص نے جرمن اخبار کو پاناما میں قائم قانونی مشاورتی ادارے موساک فونسکاکے لگ بھگ ساڑھے گیارہ ملین کاغذات ادارے کی اجازت کے بغیر خفیہ طور پر فراہم کئے، پاکستان میں پاناما کی آڑ میں سیاست کرتے ہوئے ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے تمام کی تمام پاناما دستاویزات صرف وزیراعظم پاکستان کی کرپشن کا احاطہ کرتی ہیں، درحقیقت ان دستاویزات میں وزیراعظم نواز شریف کا ذکر نہیں بلکہ انکے چار میں سے تین بچوں سمیت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی بیشتر نامور شخصیات کا تذکرہ ہے، اسی طرح روسی صدر پیوٹن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹینا کے صدر، برطانوی وزیر اعظم کے آنجہانی والدکو بھی آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، حیران کن امر یہ ہے کہ کسی ایک امریکی شخصیت کا پاناما دستاویزات میں نام نہیں پایا جاتا، متعدد مواقع پر اس تشویش کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ آیا پاناما دستاویزات کایوں مشکوک حالات میں افشا ہونا ترقی کی راہ پر گامزن ممالک کی قیادت کی کردار کشی کرنا تو نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں پاناما کے نان ایشو پر شور شرابہ ہوا جبکہ دنیا کے دیگر عوام کی جانب سے پانامادستاویزات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیاہے، آئس لینڈ کے وزیراعظم نے پاناما دستاویزات میں اہلیہ کا نام آنے کی بناپر استعفیٰ تو دے دیا مگرعوام نے ان کی جگہ جن کو نیاوزیراعظم منتخب کیا اان کانام بھی پاناما دستاویزات میں شامل ہے،یورپی ملک اینڈورا کے وزیرخزانہ کے موقف کو عوام نے تسلیم کرلیا کہ اگر ان کا نام پاناما دستاویزات میں آنے سے امورِحکومت متاثر ہوتے ہیں تو وہ مستعفیٰ ہوجائیں گے،بھارتی حکومت نے شہریوں کے پاناما دستاویزات میں نام کو صرف ٹیکس بچانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا،کینیڈین وزیراعظم نے پاناما دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے عوام کو صفائی پیش کی، اسی طرح برطانیہ اور مالٹا سمیت دیگر ممالک کے عوام نے بھی پاناما دستاویزات کے نام پر انتشار کی سیاست کو ناکام بنا دیا۔پاکستان میں پاناما پر منفی سیاست کرتے ہوئے وہ سیاستداں سرگرم نظر آتے ہیں جن کے اپنے رفقاکے نام بھی پاناما دستاویزات کی زینت ہیں، عمران خان پاناما ایشو پر وزیراعظم کا نام نہ ہونے کے باوجود بلاجوازاستعفیٰ کا مطالبہ کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ پانامالیکس میں ان کی پارٹی کے کئی قائدین کا نام بھی شامل ہے۔ آصف زرداری بلاول بھٹو زرداری اور اعتزاز احسن کو دائیں بائیں بٹھا کر پریس کانفرنس کرتے ہوئے معزز عدلیہ کے فیصلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے حق میں فیصلےکی تو تائید کرتے ہیں لیکن مخالف فیصلے پربے بنیاد گلہ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو کبھی انصاف نہیں مِلا، زرداری صاحب ایک نہایت منجھے ہوئے سمجھدار سیاستداں ہیں جن کی مفاہمت کی سیاست کا ہر کوئی معترف ہے،انہیں ایسی منفی باتیں زیب نہیں دیتیں، انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ عمران خان ایک ناتجربہ کار سیاستدان ہیں،میرے خیال میں زرداری صاحب کو میثاقِ جمہوریت پر عمل پیرا ہوکر حکومت سےتعاون کرنا چاہئے، انہیں بے بنیاد الزام تراشی کرکے عمران خان کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہئے۔اگر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہا تو اپوزیشن کو بھی ایسے مطالبات کرکے معاملے کو پیچیدہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے، اگر پاناما ایشو پر تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی کا موقف موجودہ قیادت کی مخالفت نہیں بلکہ اصولی تھا تو کیوں اعتزاز احسن اپوزیشن کے متفقہ وکیل بننے میں کامیاب نہ ہوسکے، اگر پاناما دستاویزات میں اہل خانہ کا نام آ جانا عہدے سے الگ ہونے کا معیار بنا لیا جائے تو اپوزیشن جماعتوں کو سب سے پہلے اپنے ان تمام عہدے داران سے استعفیٰ طلب کرلینا چاہئے جن کے نام پاناما دستاویزات کی زینت ہیں۔میں نے رواں سال کے آغاز جنوری میں اپنے تحریر کردہ مضمون بعنوان "تحریکِ انصاف کی جمہوریت سے ناانصافیاں"میں عمران خان کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ پاناماکیس پرسپریم کورٹ فیصلے کے بعد ردعمل سے مزید واضح ہوگئے ہیں،میں نے ان خدشات کا متعدد مرتبہ اظہار کیا ہے کہ قیاس آرائیوں پر مبنی الزامات کی بنا پرمنتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی باتوں سے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے جمہوری نظام کمزور ثابت ہوتا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے موزوں ترین ملک قرار دئیے جانے والے پاکستان کا امیج خرابہوتا ہے،یہاں میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ جمہوری نظام حکومت میں کسی سربراہِ مملکت کااحتساب کوئی معیوب بات نہیں بلکہ ایک نارمل بات سمجھی جاتی ہے۔ انڈیا، اسرائیل، امریکہ سمیت متعدد جمہوری ممالک کے سربراہانِ مملکت نے عدلیہ کے سامنے پیش ہوکر اپنا موقف پیش کیا، مونیکا لیونسکی کیس میں امریکی صدر بل کلنٹن کا اعلیٰ عدلیہ میں پیش ہونا ابھی کل ہی تو بات ہے، کیا امریکی صدرامورِ حکومت چھوڑ کرمستعفیٰ ہوئے ؟پاکستان میں گزشتہ ایک برس کے عرصے میں پاناما کے نان ایشو پراپوزیشن کی بے بنیاد الزام تراشی کرنے کا مقصد میری نظر میں عوام کو جمہوریت اور جمہوری نظام سے بدظن کرنا تھا۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ کرلیا ہے تواپوزیشن کو بھی نکتہ چینی کی بجائے عدلیہ کے فیصلے کے سانے سرتسلیم خم کرلینا چاہئے، اپوزیشن کو چوبیس گھنٹے پاناما پاناما کا راگ الاپے رکھنے کی بجائے حقیقی عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، بجٹ تجاویز، غیرمسلموں کو دہرے ووٹ کا حق، خواتین، نوجوانوں کیلئے معیاری تعلیم اور روزگاری کے مواقعوں کی فراہمی، پاک چین اقتصادی راہداری، پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول جیسے ایسے بیش بہا ایشوز ہیں جو حکومتی ترجیحات میں شامل تو ہیں لیکن اپوزیشن منفی رویے کی بنا پر متاثر ہورہے ہیں، سپریم کورٹ فیصلے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو2018کے آئندہ الیکشن کی تیاری کرنی چاہئے جس میں عوام کو اپنافیصلہ الزام تراشی پر نہیں بلکہ اپنے اپنے صوبوں میں بہترین کارکردگی دکھانے پر دینا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جے آئی ٹی صرف وزیراعظم کے اہل خانہ تک ہی محدود نہ رہے بلکہ ان تمام پاکستانی شہریوںکے بارے میںبھی صاف شفاف تحقیقات کا راستہ ہموار کرے جن کے نام پاناما دستاویزات میں شامل ہیں۔

.
تازہ ترین