• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت میں عوامی شہرت رکھنے والے افراد، جیسا کہ کرکٹر، فلم اسٹار، لکھاری، صحافی اور سیاست دان، مقبوضہ جموں اور کشمیر میں بھارتی فورسز کے جنگی جرائم کا جواز فراہم کرتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ان کی حمایت کررہے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کا برملا استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کے خلاف نفرت کو ایک معمول کا اقدام قرار دینے میں مصروف ہیں۔ نفرت کا بیانیہ، جو کئی برسوںسے ان کے مذہبی اجتماعات جیسے کم تر عوامی اہمیت کے حامل پلیٹ فارمز سے فروغ دیا جارہا تھا، نے اُس وقت یکایک نمایاں اہمیت اختیار کرلی جب اہم شخصیات نے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی درندگی کی کھل کر حمایت شروع کردی۔ تاہم انواع و اقسام کے خطرناک ہتھیار اور قتل وغارت گری کے لئے قانونی اور سیاسی پشت پناہی رکھنے کے باوجود بھارتی فوج کا مورال بہت ڈائون ہے۔ لہٰذا اسے اپنی ہلاکت خیز مہم کی پشت پناہی کے لئے عوامی حمایت کی شدید ضرورت ہے ۔
کشمیریوں کے خلاف نئی پروپیگنڈہ مہم کے تین مقاصد نظر آرہے ہیں۔ پہلا کشمیریوں کو غیر انسانی رویوں کا حامل قرار دے کر انسانی صفات اور سیاسی امکانات سے تہی داماں ثابت کرنا ہے۔ بھارتی ٹوئیٹر کے بیانیے میں حریت پسند کشمیریوں کو ’’پتھر پھینکنے والے، دہشت گرد اور پاکستان کے ایجنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی آڑ میں بھارت کی طرف سے روا رکھی جانے والی جارحیت اور بربریت پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسرا رجحان بھارتی فوج کو کشمیریوں کے قتل ِعام پر مزید بھڑکانا، اور اس دوران یہ مطالبہ بھی کرنا کہ احتجاجی مظاہرہ کرنے والے شہریوں سے نمٹنے کے لئے اُنہیں فری ہینڈ دیا جائے۔ تیسرا رجحان کم فہم مگر نفرت سے لبریز بھارتی عوام کو تحریک دینا ہے کہ وہ جنگی جرائم کی کھل کر حمایت کریں اور ایسے کسی بھی اخلاقی سوال پر زبان بند کردیں جو ریاست میں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو چیلنج کرنے کی جرات کرے ۔
’’کشمیریوں کے قتل‘‘ کی مہم گزشتہ سال نریندرمودی سرکار نے اُس وقت شروع کی جب حریت پسند تحریک اپنے پورے عروج پر تھی۔ جب وسیع پیمانے پر ہلاکتوں اور مکانات اور فصلوں کی تباہی کے باوجود بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبہ ٔ آزادی کو دبانے میں ناکام ہوگئی تو بھارت کی الیکٹرونکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کھلے عام اس بات کی حمایت کی کہ باغی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے کشمیریوں کا قتل ِعام ضروری ہے۔ Digital India، جو بھارتی حکومت کا ایک اہم ادارہ ہے جو نالج اکانومی فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔ اس نے2016 ء میں ایک نظم کو پھیلا یا جس میں بھارتی فوج کو کشمیریوں کو ہلاک کرنے کی ترغیب دی گئی تھی ۔ نصف ملین فالورز رکھنے والی Digital India کی تشہیر کردہ نظم میں فوج سے کہا گیا تھا کہ وہ عوام پر فائرنگ کرتے ہوئے اُس وقت تک ہاتھ نہ روکے جب تک وہ شہر کے چوراہوں پر آکر بھارت کا قومی ترانہ نہ پڑھیں۔ اس سے پہلے جولائی میں سرکاری ٹوئیٹر Start-UP India، جو کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت کام کرتا ہے، نے کشمیر میں مسلح اہل کاروں کی سفاکیت پر مدہم لہجے میں سوال اٹھانے والے صحافیوں کے خلاف پر تشدد جذبات کو ہوادی۔ ٹویٹ میں کہا گیا کہ وہ پاکستان کی طرف جھکائو رکھتے ہیں، اور یہ الزام تشدد کا نشانہ بنانے کا تیربہدف نسخہ ہے۔
حالیہ دنوں سری نگر میں ہونے والے ناکام انتخابات نے ایک مرتبہ پھر نفرت اور تشدد کی لہر اور اس کی سرکاری حمایت کو فروغ دیا ہے۔ ایک مشہور بھارتی کرکٹر گوتم گھمبیر، جو کولکتہ نائٹ رائیڈر کا کپتان ہے، نے بھارتی فوج کو شہ دی کہ ’’ہر تھپڑ کے بدلے ایک سو جہادیوں کو ہلاک کیا جائے‘‘۔ گھمبیر کی طرف سے نسل کشی کا مطالبہ کرنے کی اس ویڈیو کا ردِعمل یہ ہوا کہ کشمیری حریت پسند طلبہ کے ایک گروپ نے ایک بھارتی اہل کار کو تھپڑ مارا۔ یہ فورسز انتخابات والے دن درجن بھر کشمیریوں کی ہلاکت اور سینکڑوں کو زخمی کرنے کی ذمہ دار تھیں۔ ایک اور مشہور بلے باز، وریندر سہواگ نے نوجوانوں کے رویے کو ’’ناقابل ِ قبول‘‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایسے روئیے کو ہر صورت روکا جائے۔ نوجوانوں کے روئیے پر پریشان سہواگ کو اپنی فورسز کا قتل ِعام دکھائی نہیں دیا۔
نسل کشی کا مطالبہ کرنے والوں کو دیگر بھارتیوں کی بھی حمایت حاصل رہی۔ وہ کشمیریوں سے نفرت کا اظہار کرنے کے لئے کھل کر سامنے آئے۔ ایک مشہور بھارتی میڈیا مالک اور مصنف نے گوتم گھمبیر کے’’بزدل کشمیری نوجوانوں کو سبق سکھانے‘‘ کے مطالبے کی حمایت کی۔ بہت سے بھارتی افسران نے بھی کشمیریوں کے قتل عام کے لئے آواز بلند کی۔ ریٹائرڈ ایئرمارشل انیل چوپڑا، جو اس وقت آرمڈ فورسز ٹربیونل کا رکن ہے، نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی۔ شاید وہ دنیا میں غیر قانونی قتل کا مطالبہ کرنے والا پہلا جوڈیشل افسر ہوگا۔ چوپڑا کی ٹویٹ تھی۔۔۔’’ ہر وہ قوم جسے اپنا وقار عزیز ہو، اب تک پتھر پھینکنے والے100نوجوانوں کو ہلاک کرچکی ہوتی۔‘‘
کشمیریوں کی نسل کشی کے لئے عوامی مہم میں مزید شدت اُس وقت آگئی جب ایک ویڈیو میں ایک کشمیری کو بھارتی فوجی جیپ کے ساتھ بندھا دیکھا گیا۔ وہ شخص چھبیس سالہ فاروق احمد ڈار تھا جو شالیں بافی کاکام کرتا تھا۔ اُسے انسانی ڈھال کے طور پر فوجی جیپ کے آگے باندھا گیا تھا تاکہ احتجاجی مظاہرین کو فوجی قافلے پر پتھرائو سے باز رکھا جاسکے۔ اس ویڈیو سے پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ بھارتی فوج شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ بھارتی فوج کا یہ دیرینہمعمول تھا لیکن اس کا ناقابل ِ تردید ثبوت اب ویڈیو کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ اس پر بھارتی دانشور طبقے کو آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ عام طور پر ایسے واقعات کو منظر ِعام پر لانے کی کوشش کو ’’آئی ایس آئی کا پروپیگنڈا‘‘ قرار دیتے تھے۔ ستم یہ ہے کہ فاروق ڈار بھارت نواز جماعت کا حامی تھا لیکن سرکاری افسران سے لے کر سیاست دانوں اور صحافیوں تک، ہر کسی نے اس اقدام کی حمایت کی۔ اس سے ایک بار پھر کشمیر ی مسلمانوں، چاہے اُن کا سیاسی جھکائو کسی طرف کیوں نہ ہو، کے حوالے سے مخصوص بھارتی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ بھارتی قوم نے نوجوان کو جیپ کے ساتھ باندھنے والے میجر کو سراہا۔ جنگی جرائم کے ارتکاب کے باوجودبھارتی حکومت نے میجر کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ بی جے پی کے ارکان ِ پارلیمنٹ میں سے ایک، پرتاب سمہا نے اُس کی حمایت میں ملک گیر مہم چلانے کا نعرہ بلند کیا۔ اُس نے اپنے ٹویٹ پیغام میں گوگوئی کو ’’دلیر بھارتی‘‘ قرار دیا۔ اٹارنی جنرل آف انڈیا، موکل روہتاگی نے تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ میجر گوگوئی تنقید کی بجائے تعریف کا حقدار ہے کیونکہ انسانی ڈھال استعمال کرتے ہوئے صورت ِحال کو اپنے بس میں کرنا بہترین حکمت ِعملی تھی۔ ایک سینئر صحافی اور سابق مدیر، آر جگن ناتھن نے بھی اس اقدام کی بھرپور حمایت کی۔ اس کے ٹویٹ پیغام سے بھارت کی کشمیریوں سے دشمنی کا کھل کر اظہار ہوتا ہے۔ وہ فاروق ڈار کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر تبصرہ کرتے ہوئے مچھر دور بھگانے والے اقدام‘‘ کا حوالہ دیتا ہے ۔ اس کا ٹویٹ پیغام کہتا ہے۔ ’’آپ مچھر دور بھگانے والا لوشن استعمال کرسکتے ہیں۔ فوج نے بھی ایک مقامی آدمی کو جیپ کے ساتھ باندھ کر یہی کچھ کیا۔‘‘

.
تازہ ترین