• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایٹمی سائنسدانوں کی ایک تنظیم نے شکاگو یونیورسٹی میں جو علامتی "قیامت کی گھڑی" (Doomsday clock) آویزاں کر رکھی ہے وہ 1953 کے بعد جب امریکہ نے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا تھا، اس وقت سےخطرناک ترین وقت بتا رہی ہے۔ 1947میں ایٹمی سائنسدانوں نے اپنی تمام تر تحقیق کی روشنی میں اس گھڑی پر جو ٹائم سیٹ کیا تھا وہ رات بارہ بجنے (ممکنہ ایٹمی تباہی کا وقت) میں سات منٹ کا تھا۔ اسکے بعد مختلف سیاسی، سائنسی اور موسمی تبدیلیوں کی روشنی میں قیامت کی گھڑی میں 22 دفعہ وقت تبدیل کیا گیا اور آخری دفعہ جنوری 2017 میں قیامت کی گھڑی پر رات بارہ بجنے میں صرف ڈھائی منٹ کا وقت سیٹ کیا گیا ہے۔ یعنی اس علامتی گھڑی کے مطابق نسلِ انسانی قیامت سے صرف ڈھائی منٹ دور ہے۔
2017کے اوائل تک تین خوفناک وجوہات سامنے آ چکی تھیں جو قیامت کی گھڑی کو قریب تر لے آئی ہیں۔ پہلی وجہ درجہ حرارت میں مسلسل اور ناقابلِ تلافی اضافہ ہے۔ دوسری وجہ دنیا بھر میں شدت پسندی میں اضافہ ہے جو کہیں (امریکہ، یورپ، روس، چین، شمالی کوریا) قوم پرستی اور کہیں (پاکستان، بھارت، برما، مشرقِ وسطی) مذہبی انتہا پسندی کی شکل میں قابو سے باہر ہو رہی ہے۔ اور تیسری وجہ ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی میں خوفناک ترقی۔
یہ تمام وجوہات انسانی اقدامات کا نتیجہ ہیں، جو غلط انسانی فیصلوں کے باعث اٹھائے گئے۔ جدید علوم نے یہ ثابت کیا ہے اور حالیہ تاریخ سے بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جمہوری فیصلہ سازی درست اقدامات کا باعث بنتی ہے جبکہ غیر جمہوری یا آمرانہ فیصلہ سازی کی تباہی سے پوری تاریخ انسانی بھری پڑی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں ایٹمی جنگ کے خطرے کے حامل دو تنازعات (nuclear flash points) ہیں۔ پہلا مسئلہ پاک بھارت کشیدگی ہے، جس پر حال ہی میں امریکہ کا بیان آیا ہے کہ ہم اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ پاکستان میں ایٹمی بٹن جمہوری فیصلہ سازی کے کنٹرول میں نہیں ہے بلکہ وہ چند افراد کے ہاتھ میں ہے جو کسی جمہوری فورم کو جوابدہ نہیں، جو ایک خطرناک بات ہے۔ بھارت میں اگرچہ حتمی اختیار جمہوری کنٹرول میں ہے لیکن بھارت کی جمہوریت نے ہندو انتہا پسندی کی جو فصل کاشت کی ہے، وہ بذات خود ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ پھر دونوں ملکوں کے درمیان ایک انچ کی بھی رکاوٹ یا بفرزون حائل نہیں جس کی وجہ سے کسی حادثاتی یا غلط فہمی کی صورت میں بھی ریکشن ٹائم چند منٹ کا ہے۔ دونوں ممالک آبدوزوں سے میزائل داغنے کی دوسرے وار کی صلاحیت (Second Strike Capability) حاصل کر چکے ہیں جسکا مطلب ہے کہ اگر پہلے وار کی صورت میں ملکی ایٹمی انفراسٹرکچر یا کمان اینڈ کنڑول سسٹم متاثر ہو جائے تو بھی وہ ملک آبدوزوں میں موجود اپنے باقی ماندہ ایٹمی بم بچا کر حملہ آور ملک پر دوسرا ایٹمی وار کر سکے گا ، دونوں ممالک ضرورت پڑنے پر پہلے ایٹمی وار کرنے کا "عندیہ" دے چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اس صورتحال نے ہمارے علاوہ ساری دنیا کو پریشان کیا ہو اہے، اور ہم جو لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں براہ راست ایٹمی بموں سے ملیامیٹ ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، ہمیں فکر تو کیا خطرے کا ادراک تک نہیں۔ ہمارے عوام کا پاک بھارت کشیدگی سے اسطرح لاپراہ اور بے نیاز ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ ہمیں آنکھیں کھولنی چاہئیں اور پاک بھارت کشیدگی کو ہوا دینے والوں سے مشکل سوالوں کے جواب مانگنے چاہئیں۔
ایٹمی خطرے کا حامل دوسرا تنازع ایک دفعہ پھر امریکہ اور روس کی کشیدگی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ اور روس کا معاملہ بھی ہمارے جیسا ہے، روس میں جمہوریت ایک دھوکا ہے جبکہ امریکی جمہوریت نے ٹرمپ کی صدارت کا گھائو کھایا ہے۔ جمہوری فیصلہ سازی نہ ہونے یا کمزور ہونے سے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ حال ہی میں گوربا چوف نے مسائل کے حل کیلئے روس میں جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ امریکہ اور روس شام میں پہلے پراکسیز کی شکل میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے لیکن شامی فضائیہ کے بڑے حصے کو تباہ کرنے کے بعد اور بشار الاسد کی طرف سے باقی ماندہ فضائی اثاثوں کو روسی حفاظت میں دینے کے بعد کشیدگی براہ راست ہوتی جا رہی ہے۔ شمالی کوریا کے معاملے میں امریکہ نے بحری بیڑہ شمالی کوریا کی طرف روانہ کرنے کا اعلان کیا تو چین نے روس سے درخواست کی اور اب دونوں نے اپنے جاسوسی جہازوں کو امریکی بیڑے کی نگرانی کیلئے بھیج دیا ہے۔ پچھلے ہفتے روس کے ایٹمی صلاحیت کے حامل جنگی جہاز امریکی ریاست الاسکا کے دو دفعہ اتنے قریب گئے کہ امریکی فضائی جہازوں کو انہیں روکنا پڑا۔ مغربی میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ سرد جنگ کی چھپن چھپائی کے بعد روس نے پہلی دفعہ امریکہ کو ایٹمی اسلحے کی دوڑ میں شکست فاش دے دی ہے۔ ہوا یوں کہ جب امریکہ صدارتی انتخابات کے مرحلے میں تھا، روس نے خاموشی سے "4202 Object" نامی سپر ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کر لیا جو آواز کی رفتار سے پندرہ گنا تیز سفر کر سکتا ہے۔ یہی نہیں RS 28 نامی میزائل جسے مغرب میں شیطانی میزائل کا نام دیا جا رہا ہے، آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز، راستہ بدل کر دھوکہ دینے، خلا کی بجائے نچلی پرواز جیسی خصوصیات کی وجہ سے امریکہ کے میزائلوں کو روکنے کی تمام دفاعی ٹیکنالوجی کو غیر موثر بنا چکا ہے۔ یہ ایک میزائل پندرہ بڑے سائز کے ایٹمی بم یا تین سپر ایٹمی بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اگر اس میزائل پر سپر بم نصب کئے جائیں تو یہ چار ہزار میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رفتار سے صرف بارہ منٹ میں روس سے امریکہ کو ٹارگٹ کر سکتا ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے پاس خود کو روس کے پہلے تباہ کن ایٹمی وار سے بچانے کا کوئی ذریعہ نہیں، جبکہ امریکہ اور روس کے پاس ہزاروں ایٹمی بم اور میزائل موجود ہیں۔ اور کسی حادثاتی، غلط فہمی پر مبنی یا اصل ایٹمی وار کیلئے امریکہ کے پاس ریکشن ٹائم صرف بارہ منٹ کا رہ گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کرہ ارض پر انسانی زندگی اور اسکے مکمل یا تقریبا مکمل خاتمے کے درمیان صرف بارہ منٹ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔

.
تازہ ترین