• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانامہ کیس کا عبوری فیصلہ صادر ہوا تو وزیر اعظم کے لئے قومی اخبارات نے شہہ سرخیاں لگائیں کہ وزیراعظم بچ گئے ان کے مشیروں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم سر خرو ہوگئے مدعی اور مدعی علیہ دونوں ہی کو اس عبوری فیصلے سے مسرت ہوئی مٹھائیاں کھائی ،کھلائی گئیں مبارک سلامت کا غلغلہ بلند ہوا حیرانگی کی بات ہے کہ بڑے بڑے اہل سیاست، اہل دانش، اہل قانون، وکلا سب کے سب اس فیصلے کو اپنی اپنی عینک سے دیکھ رہے ہیں حکمراں جماعت اپنے مخالفین کو طعنے دے رہے ہیں جھوٹے الزامات لگانے والوں کو شرمندہ ہونے کی بات کر رہے ہیں جتنے منہ اتنی باتیں کی جارہی ہیں ۔جناب آصف علی زرداری کے مطابق عدلیہ نے عوام سے مذاق کیا ہے انہوں نے اس عبوری فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور حکمران وقت کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا ہے۔ انہوں نے میاں صاحب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ دو سینئر جج صاحبان جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا ہے ان کے نوٹ کے مطابق وزیر اعظم امین اور صادق نہیں رہے اس لئے الیکشن کمیشن ان کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے جبکہ تین جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں وزیر اعظم کی اہلیت یا نا اہلیت کا فیصلہ کرنے کے لئے مزید تحقیق کے لئے جے آئی ٹی بنادی ہے جو براہ راست عدالت عظمیٰ کو جوابدہ ہوگی محترم جج صاحبان کے مطابق جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں فوجداری کارروائی کے احکامات دئیے جاسکیں گے۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے تمام مشیر دوست احباب جو خوشیاں منا رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا عہدہ بچ گیا وہ اس عبوری فیصلے سے صرف اس لئے مطمئن اور خوش نظر آرہے ہیں کہ ان کے خیال میں فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں ہوگا۔ اسی لئے وہ سب کے سب یک زباں ہو کر بار بار یہی کہتے رہے کہ پانامالیکس سے وزیر اعظم کا کوئی تعلق نہیں ان کا نام پاناما لیکس میں نہیں آیا اس غلط فہمی میں وہ پے در پے غلطیاں کرتے رہے۔ اس عبوری فیصلے نے وزیر اعظم کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کے لئے جو سوالات دئیے ہیں وہ سب کے سب ان کے گرد حصار بنا رہے ہیں اختلافی نوٹ میں بھی ان کا صادق و امین نہ ہونا بتایا گیا ہے اس پر کسی کا کوئی اختلافی نوٹ بھی نہیں ہے ہاں اس کے بارے میں ہی تحقیق و تفتیش ہونا ہے کہ انہوںنے جس قدر حقائق کو چھپایا اور عدالت کو حقائق بتانے سے گریز کیا ہے اس کے پس پردہ کیا حقائق ہیں۔ پہلے جب مقدمہ چلا تو اس وقت سارے الزامات ان کے بچوں کی طرف منتقل ہو رہے تھے خود وزیر اعظم بھی بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ بچے خود مختار اور خود کفیل ہیں ان کے کاروبار سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جیسے جیسے پیروی آگے بڑھتی گئی معاملات بننے کی بجائے بگڑتے گئے اور مقدمےکا رخ وزیر اعظم کی طرف مڑتا چلا گیا۔ وزیر اعظم جس اہم ترین منصب پر فائز ہیں اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرتے اور تمام حقائق بتاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیاجو ان کے لئے مشکل کا باعث بنا اگروہ ایسا کرتے تو ان کی عزت و قعت میں اضافہ ہوتا اور ان پرجو بددیانتی بے ایمانی کے الزامات لگے وہ نہ لگتے ۔اب وہ چاہے جو بھی کرلیں ان کی اس عبوری فیصلے سے جو بدنامی ہوئی ہےوہ کم یا ختم نہیں ہونے والی نہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا کیونکہ عدالت عظمیٰ کے اس بینج کے باقی تین جج صاحبان جناب جسٹس عظمت سعید جناب جسٹس اعجاز افضل صاحب جناب جسٹس اعجاز الاحسن صاحب نے جو اختلاف جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار احمد کے نوٹ سے کیا وہ صرف اتنا ہے کہ وزیر اعظم کے وکلا نے جو ادھوری شہادتیں پیش کی ہیں وہ قطعی طور پر عدلیہ کو مطمئن نہیں کرسکیں ان سے پوری طرح وزیر اعظم کی بریت ثابت نہیں ہو رہی اس لئے ہی ان تین جسٹس صاحبان نے جے آئی ٹی بنا کر تحقیق کا حکم دیا ہے تاکہ ملزم کو مجرم ثابت کرنے سے قبل تمام حقائق جو پردے میں ہیں سامنے آسکیں اور فیصلہ قطعی اور حتمی اور مشترکہ صادر کیا جاسکے، ویسے تو یہ عبوری فیصلہ بھی کہیں سے ایسا اختلافی فیصلہ نہیں ہے جس سے کہیں بھی وزیر اعظم یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کلین چٹ مل رہی ہو ان تینوں جسٹس صاحبان نےکوئی بڑا اور نیا اختلاف نہیں کیا ہاں حتمی فیصلے کو مزید مدلل اور شفاف اور تاریخی بنانے کے لئے مذید تحقیق کا حکم صادر کیا ہے ان صاحبان عدل نے کہیں بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کے فیصلے کو نہ رد کیا نہ اس سے اختلاف ہی کیا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان محترم جسٹس صاحبان کے فیصلے کو مزید تقویت دینے اور مضبوط دلیل کے ساتھ بھرپور اشتراک کے ساتھ نافذ کرنے اور اسے واقعی ایسا تاریخی فیصلہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ برسوں یاد رکھا جائے ساٹھ دن آگے بڑھا دیا ہے تاکہ اس عرصے میں متعلقہ تیرہ سوالات کی تحقیق و تفتیش ہوجائے اور ایک جامع اور مربوط فیصلہ صادر کیا جاسکے ۔ وزیر اعظم کے صادق و امین ہونے پر تو نشان لگا دیا گیا ہے اس پر کوئی اختلاف بھی نہیں اس کا مقصد یہ ہوا کہ بینچ کے دیگر جسٹس صاحبان نے در اصل اس کی حمایت کی ہے کہ وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے، جس کا اظہار وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد واضح طور پر کرسکیں گے۔ وزیر اعظم کے پاس ابھی موقع ہے کہ وہ مستعفیٰ ہو کر تمام اسمبلیاں تحلیل کر کے عبوری حکومت بنا کر نوے دن یا ساٹھ دنوں میں نئے الیکشن کا اعلان کردیں تو ان کے لئے اچھا ہوگا اس طرح ان کے تمام مخالفین مشکل میں پڑ جائیں گے۔ تمام اہل سیاست اور خصوصاً جناب آصف علی زرداری صاحب نے جے آئی ٹی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ان کے خیال کے مطابق جے آئی ٹی کے ارکان تقریباً 19 گریڈ کے افسر ہوں گے جو اپنے اوپر گریڈ کے افسران کے ما تحت ہوتے ہیں اس لئے وہ دبائو میں رہیں گے تو وہ درست اور حقیقی تحقیق و تفتیش کیسے کرسکیں گے ان کے خیال کے مطابق اب تک جتنی بھی جے آئی ٹی بنی ہیں ان کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آسکیں اس بار بھی ایسا ہی ہوگا اور شفاف رپورٹ نہیں بن سکے گی، حالانکہ عدالت عظمیٰ نے ان ہی خدشات کے پیش نظر حکم دیا ہے کہ ہر پندرہ دن میں عدلیہ کو رپورٹ کی جائے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ حکومت کو نہیں عدالت عظمیٰ کو پیش کی جائے ہے اسی کا حکم بھی عدالت عظمیٰ نے ہی دیا ہے اور اس کی ترتیت و تنظیم کا طریقہ بھی عدالت عظمیٰ نے ہی بتا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کے بچ جانے کا خواب دیکھنے والوں کو کیا تعبیر ملتی ہے۔ کیا واقعی وزیر اعظم بچ جائیں ۔گے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور عدلیہ کو مذید عظمت عطا کرے اور حق سچ کا بول بالا کرے۔ آمین

.
تازہ ترین