• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کو پتا ہے کہ ہم پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ؟آپ کو معلوم ہے کہ ہم اوورسیز پاکستانی وطن عزیز میں معتبر اثاثہ اور قیمتی سرمایہ سمجھے جاتے ہیں ؟کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں روزمرہ زندگی کا جو پہیہ رواں دواں ہے اُسے چلانے میں ہمارے بھیجے ہوئے اربوں روپوں کا زرِمبادلہ بھی شامل ہوتا ہے ؟آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ پاکستان میں زلزلہ، سیلاب یا کسی بھی آفت کے آنے پر اوورسیز پاکستانی اپنی امدادی رقوم اور احساس و جذبہ اپنے وطن کے متاثرین بھائیوں پر کس طرح نچھاور کرتے ہیں ؟یہ وہ سوالات اور معلومات ہیں جو تارکین وطن پاکستانی اپنے ہم وطنوں کو پہنچانا چاہتے ہیں۔دوسرے ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے عملے کا اوورسیزپاکستانیوں سے ناروا سلوک اور نازیبا لہجے کی تکلیف کے درد سے نکلنے والی چیخیں، دبی دبی سسکیاں، شکوے اور شکایات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر ناروے کی پاکستانی فیملی کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز سلوک کی فوٹیج دیکھ کر سب کانپ اُٹھے۔اِس سلوک کو دیکھ کر وہ تمام سوالات اور معلومات یکسر غائب ہو گئیں جو تارکین وطن فخر سے بیان کر تے تھے،اُس فوٹیج کو دیکھنے کے بعد نہ تو اوورسیز پاکستانی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی رہے اور نہ ہی وہ بیچارے معتبر اثاثہ اور قیمتی سرمایہ نظر آئے۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ خواتین جنہیں جانوروں کی طرح بالوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر مارا گیا انہیں پر کار سرکار میں مداخلت کی ایف آئی آردرج ہو گئی،اُن خواتین کو ناروے کی فلائٹ سے آف لوڈ کر دیا گیا اور انکوائری رپورٹ میںبتایا گیا کہ پہلے مسافر خواتین نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔مان لیں کہ مسافر خواتین نے پہلے زیادتی کی لیکن کیا اُس زیادتی کے جواب میں پورے ایئر پورٹ کے سامنے اُن خواتین کو اِس طرح زدوکوب کرنے اور بالوں سے پکڑ کر تشدد کرنا کہاں کا انصاف تھا، کیا یہ عدالتی سزا تھی جو اُن مسافر خواتین کو تشدد کی صورت میں دی گئی ؟ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر ندیم نے ساراوقوعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا،اے این ایف کا اہلکار بھی وہاں ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا جب غزالہ شاہین مسافر خواتین کو بالوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر انہیں مکے اور طمانچے رسید کر رہی تھی۔ اطلاعات کے مطابق غزالہ شاہین کومعطل کر دیا گیا ہے، لیکن کچھ دن بعد ہم آپ کو بتائیں گے کہ وہ معطل شدہ اہلکار دوبارہ سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہے۔ لاقانونیت کہہ لیں یا لوڈ شیڈنگ دونوں حوالوں سے پاکستان اندھیر نگری ہے اور ہم وہاںکے مکین ہیں۔ تارکین وطن کی فلاح و بہبود اور اُن کے مسائل حل کرنے کے لئے بنائے گئے ادارے او پی ایف،او سی پی، محتسب اعلیٰ کے ایڈوائزر برائے اوورسیز اوروفاقی کمشنرو مشیر وزیر اعظم برائے اوورسیز پاکستانی کے نمائندے اسلام آباد ایئر پورٹ پر خود کیوں نہیں پہنچے ؟انہوں نے وہاں جا کر اِس واقعہ کا نوٹس کیوں نہیں لیا ؟کیا یہ ادارے صرف پروٹوکول، مراعات اور فنڈز لینے کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔اوورسیز پاکستانیوں نے اِس صورت حال پر آپس میں مل کر یہ عہد کیا ہے کہ آئندہ کوئی بھی ایم پی اے، ایم این اے،پاکستان کا وزیریا کوئی مشیر دوسرے ممالک کے دورہ پر آیا تو اُن ممالک میں مقیم کوئی پاکستانی آنے والے کے اعزاز میں نہ تو عشائیہ دے گا اور نہ ہی کسی قسم کے ظہرانے کا اہتمام کرے گا۔کیونکہ یہ مذکورین گرمیوں میںچھٹیاں گزارنے جب ٹھنڈے ملکوں میں آتے ہیں تو اوورسیز پاکستانی اِن کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھا دیتے ہیں،لیکن اسلام آباد ایئر پورٹ کے واقعہ پر کسی بھی ایسے ایم پی اے یا ایم این اے نے کوئی بیان نہیں دیا کوئی نوٹس نہیں لیا۔تارکین وطن پاکستانیوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ واقعہ کے حوالے سے جب اپنے واقف حکومتی نمائندوں سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ سب پانامہ لیکس اسکینڈل پر آنے والے فیصلے پر مٹھائیاں بانٹنے اور کھانے میں لگے ہوئے ہیں، باقی ماندہ ممبرز پارلیمنٹ میاں نواز شریف زندہ باد اور مسلم لیگ ن پائندہ باد کے نعرے مار کر اپنے قائدین اور اُن کے اہل خانہ کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔مسلم لیگی نمائندوں سے مایوس ہو کر جب تحریک انصاف کے نمائندوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو بتایا گیا کہ وہ بھی مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔تارکین وطن پاکستانی سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ جس نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا وہ کہتا ہے ہمارے حق میں فیصلہ آیا ہے اور جس پر کیس دائر ہوا وہ اور اُن کے ساتھی خوش ہیں کہ فیصلہ ہمارے حق میں آیا ہے دونوں فریقین مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں اب ان حالات میں تارکین وطن اپنی شکایات کے ازالہ کے لئے کس کے پاس جائیں ؟ٹی وی چینلز پر تارکین وطن پاکستانیوں نے ایک دن دیکھا کہ تحریک انصاف کے چیئر مین سپریم کورٹ کے ججوں کو ساری قوم کی طرف سے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ایسی ججمنٹ پاکستان میں پہلے نہیں آئی،یہ ججمنٹ بذات خود ملکی تاریخ بن گئی ہے،جو ثبوت عدالت کو دیئے گئے وہ نا کافی ہیں،جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ آیا ہے،اب وزیر اعظم کی 60دن تک مزید تلاشی لی جائے گی، جس طرح عزیر بلوچ سے پوچھا گیا اسی طرح وزیر اعظم سے پوچھا جائے گا،کیا عزت رہے گی وزیر اعظم کی ؟اور یہ مسلم لیگی کس بات کی مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں ؟ایک دن بعد شاید بات چیئر مین کی سمجھ میں آگئی کہ سپریم کورٹ نے تو کہا تھا کہ پاکستان کے انصاف دینے والے ادارے مفلوج ہو چکے ہیں تمام ادارے وزیر اعظم کے دائرہ اختیار میں ہیں،اب جو ادارے پہلے ہی فیل ہو چکے ہیں وہ وزیر اعظم کے خلاف کوئی کارروائی کیسے کریں گے ؟ ہم اِس فیصلے کو نہیں مانتے ’’جے آئی ٹی‘‘ جو وزیر اعظم کے نیچے بنائی جا رہی ہے ہم اُس کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے،تحریک انصاف اور مسلم لیگ کی اِس سیاسی جنگ میں تارکین وطن اسلام آباد والا مسئلہ کہاں سے حل کرائیں ؟ دو ماہ تک ملک میں پانامہ، تلاشی اور استعفیٰ جیسی کھینچا تانی جاری رہے گی، اب مسافر خواتین حسینہ بیگم، فاطمہ عمر اور فوزیہ عمر کہاں انصاف تلاش کریں گی، تھک ہار کر ناروے آجا ئیں گی اور واپس آکر وہ بھی موجودہ حکومت کے دور میں ایئر پورٹ پر ہونے والی زیادتی اور اُس پر کوئی نوٹس نہ لئے جانے پر بد دعائیں دیں گی، ویسے انہیں بد دعا مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے نزدیک ہے۔



.
تازہ ترین