• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سال جی ہاں محض ایک سال گزرا ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں نے اپنے خون سے جس قومی اتحاد کو سینچا تھا اس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور چارسدہ حملے کے بعد یہ دراڑیں گہری ہوتی نظرآرہی ہیں،صرف بارہ مہینوں بعد ہی جو ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ڈال کر’’ ہم ایک ہیں‘‘کی صدائیں بلند کی تھیں وہ ہاتھ چھڑا کر انگلیاں دوبارہ ایک دوسرے کی طرف اٹھا دی گئی ہیں۔ یونیفارم پہنے شہید ہونے والے معصوم بچوں کے پاکیزہ لہو کی قسم کھا کر جو وعدے کئے تھے انہیں بھولنے لگے ہیں۔ تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک نکتے پر متفق ہونے کا جو عزم ظاہر کیا گیا تھا وہ کمزور پڑنے لگا ہے۔ جس مقدس ایوان میں کھڑے ہو کر دہشت گردی کے معاملے پر سیاست نہ کرنے کے اعلانات کئے تھے اسی عمارت سے وفاقی وزیر داخلہ سے استعفے طلب کرنے کی صدائیں بلند کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس میں منعقد ہونیوالے سیاسی وعسکری قیادت کے جس اجلاس کے بعد ’’ایک پیج‘‘پر ہونے کی نوید سنائی گئی تھی اب وہیں سے اپنے اپنے پیج جاری کئے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کی ذمہ داری مشترکہ قرار دی تھی اب وہی ایک دوسرے کو گورننس اور آئینی حدود کا مفہوم سمجھا رہے ہیں۔ جنہیں اپنے صوبے میں بلا تفریق کارروائی کرنے کیلئے کپتان بنایا گیا تھا وہ ’’ ٹیم‘‘ کو ہی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جو بڑے بھائی کی گردان کرتے نہیں تھکتے تھے وہ آج اسی بھائی پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔ جنہوں نے پارٹی مفادات سے بالا تر ہو کر وزیراعظم کی سربراہی میں دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان منظور کیا تھا آج وہی اسے ن لیگ ایکشن پلان قرار دے رہے ہیں۔ ہزاروں بے گناہ جانوں کی قربانی دینے کے بعد جو ’’ ہم‘‘ میں ڈھل گئے تھے وہ ایک بار پھر میں اور تو کی تکرار کرنے لگے ہیں۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ جن درندہ صفت دہشت گردوں سے دھرتی کو پاک کرنے کیلئے تمام رہنمائوں نے ایک مٹھی کی شکل اختیار کی تھی وہ تو اختلافات بھلا کر اپنے ناپاک عزائم کیلئے ایک دوسرے میں ضم ہو رہے ہیں اور یہ پھرتقسیم ہونے جا رہے ہیں۔ اسے تقسیم کا نام دیا جائے،اختلاف رائے پکارا جائے یا عدم اعتماد سے تعبیر کیا جائے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ضمن میں تنازعات جنم لے چکے ہیں۔ دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہوتا ہے تو تنقید کرنے والوں کی تان اسی نیشنل ایکشن پلان پرآ کرٹوٹتی ہے اور ساری توپوں کا رخ وفاقی وزیر داخلہ کی طرف ہو جاتا ہے۔ شو مئی قسمت کہ وہ موجودہ حکومت کے واحد وزیر ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی وزارت کی اب تک کی کارکردگی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی ہے بلکہ خود کو ہر طرح کے پارلیمانی احتساب کیلئے بھی پیش کیا ہے لیکن ان کیساتھ اپوزیشن کا رویہ پنجابی محاورے’’آٹا گھندی ہلدی کیوں اے‘‘ کے مصداق ہے۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ تنقید کرنے والے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا ذمہ دار صرف وزیر داخلہ کو ہی سمجھتے ہیں اورحد تو یہ ہے کہ جنہوں نے کبھی اس نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پڑھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی وہ بھی آستینیں چڑھا کر شروع ہو جاتے ہیں کہ جی اس پر عمل نہیں ہوا۔ آئیں نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ حقائق ہیں کیا۔ پہلا نکتہ سزایافتہ دہشت گردوں کی پھانسی کا تھا جس کے تحت اب تک 329 درندے کیفر کردار تک پہنچائے جا چکے ہیں۔ دوسرا نکتہ،خصوصی یعنی فوجی عدالتوں کے قیام کا تھا جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 11ملٹری کورٹس قائم کی گئی ہیں جنہیں اب تک 148مقدمے بھیجے جا چکے ہیں۔تیسرا نکتہ مسلح گروپوں پر پابندی کا تھا جس کے تحت 62کالعدم تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔چوتھا نکتہ نیکٹا کو مضبوط اور فعال بنانا ہے جس پر سب سے زیادہ تنقیدکی جاتی ہے اور تنقید کرنے والوں میں وہ سب سے آگے وہ ہیں جنہوں نے اپنے دور حکومت میں نیکٹا کی عمارت کا چار سال کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا۔ اب نیکٹا کیلئے ایک ارب چھ کروڑ روپے کا بجٹ جاری کیا جا چکاہے،افسران اور عملے کی تعیناتی اور ان کی استعداد کار میں اضافے کیلئے تربیت جاری ہے۔ پانچواں نکتہ نفرت انگیزتقاریر اور انتہا پسندانہ مواد پر پابندی کا تھا جس کے تحت دو ہزار تین سو سے زائد مقدمات درج کئے گئے اور اکیس سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ،پہلی بار لائوڈ اسپیکرز کے غلط استعمال پر ہزاروں لوگ حراست میں لئے گئے۔چھٹا نکتہ دہشت گردافراد اور تنظیموں کی مالی مدد کا تھا،اس ضمن میں ایک مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا گیا،حوالہ ہنڈی کے تحت رقم بھیجنے پر 214 مقدمات درج کئے گئے،تین سو سے زائد افراد گرفتار ہوئے۔ رقم کی مشکوک منتقلی پر 67کیسز پر کام کیا گیا۔ تمام صوبوں میں کاونٹر ٹیررسٹ فنانسنگ یونٹس کی تشکیل کا کام جاری ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ بل میں ترمیم کی جا چکی ہے۔ ساتواں نکتہ کالعدم تنظیموں کے دوبارہ ظہور کو روکنا تھا،اس ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور کالعدم تنظیمیں نام بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اسکے سدباب کی زیادہ ذمہ داری متعلقہ صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔آٹھواں نکتہ انسداد دہشتگردی فورس کا قیام تھا جس کے تحت صوبوں میں متعلقہ فورس قائم کر کے تربیت دی جا رہی ہے اور وفاق کی سطح پر ایک ہزار نفری پر مشتمل فورس کے قیام کا عمل جاری ہے۔ نواں نکتہ مذہبی بنیادوں پر استحصال کا خاتمہ تھا،یہ نکتہ بھی صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جس پر موثر پیش رفت نہیں ہوئی۔دسواں نکتہ مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن تھا جس کے تحت متعلقہ فریقین کے اتفاق رائے سے رجسٹریشن فارم بنایا جا چکاہے،80فیصد مدارس کی جیو میپنگ کر لی گئی ہے،182 مدارس کو بند کیا گیا اور 172مدارس کی غیر ملکی فنڈنگ کا سراغ لگایا گیا ہے تاہم اس نکتے پر ابھی مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گیارہواں نکتہ دہشتگردوں کی میڈیا پر تشہیرکو روکنے کا تھا جس پر مکمل عمل ہو چکا، بارہواں نکتہ فاٹا اصلاحات کا تھا جس پرعمل درآمد نہیں ہوا۔ تاہم اس کی وجہ فریقین میں تاحال متعلقہ ترامیم پراتفاق رائے نہ ہونا ہے۔ تیرہواں نکتہ دہشت گردوں کا مواصلاتی نیٹ ورک توڑنا ہے جس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے۔چودہواں نکتہ سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کی ترغیب کو روکنا تھا جس پر عمل درآمد کی ذمہ داری وزارت آئی ٹی کی ہے جو تاحال پوری نہیں ہوئی۔پندہواں نکتہ پنجاب میں انتہا پسندی پر مکمل قابو پانا تھا جس کے تحت 1132 خطرناک افراد کی نشان دہی کی گئی،405کی مانیٹرنگ جاری ہے تاہم بہت کام باقی ہے۔سولہواں نکتہ کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا تھا جس کے تحت شہر میں 80 فیصد دہشت گردی ختم ہو چکی ہے تاہم اب صوبائی حکومت کے رویے سے رکاوٹ پڑ رہی ہے۔سترھواں نکتہ بلوچستان میں مفاہمتی عمل تھا جس کے تحت 625 فراری ہتھیار ڈال چکے ہیں اور مزید سے بات چیت جاری ہے۔ اٹھارواں نکتہ فرقہ واریت پر قابو پانا تھا جس کیلئے خاطر خواہ اقدامات کا ثبوت محرم الحرام کا پر امن گزرنا ہے۔انیسواں نکتہ افغان پناہ گزینوں کاہے جنکی رجسٹریشن پر بلوچستان،خیبر پختونخوا حکومت اور وزارت داخلہ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔آخری نکتہ فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات متعارف کرانا تھا جس پروزارت قانون کی طرف سے کچھوے کی رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ان حقائق کی روشنی میں قارئین خود بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر کس حد تک عمل درآمد ہوا ہے اور جن نکات پر سست روی سے کام ہوا اس کا ذمہ دارکون ہے ،لیکن ارباب اختیار یہ مت بھولیں کہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سب پریکساں عائد ہوتی ہے اور جس نے اس اتحاد میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی اسے یہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔
تازہ ترین