• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں کافی عرصے سے کراچی پر ہی کالم لکھ رہا ہوں، اب تک وقفے وقفے سے میں کراچی کے مختلف ایشوز اور ان کے مختلف پہلوئوں پر یہ کالم لکھتا رہا ہوں، اس کے کچھ اسباب ہیں‘ ایک تو کراچی نہ فقط سند ھ مگر سارے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے‘ بڑے شہروں کے تو ویسے بھی کئی مسائل ہوتے ہیں جن کو حل کرنے کے لئے سیاسی قیادت کو وقت بہ وقت ضروری توجہ دینی پڑتی ہے‘ مجھے اس ایشو پر بار بار اس وجہ سے بھی لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے کچھ ’’مہربان‘‘ اس رائے کے ہیں کہ کراچی فقط ان کا ہے‘ بھائی کراچی سب کا ہے‘ کراچی تو سندھ کی جان اور جگر ہے‘ مگر اب تو یہاں فقط سندھی نہیں رہتے پنجابی اور پختون بھائی بھی رہتے ہیں‘ بلوچ تو پتہ نہیں کب سے سندھی ہیں اور سندھیوں کے دکھ سکھ کے ساتھ رہے ہیں‘ میرے یہ کالم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں رہنے والے مختلف حلقوں کو ایک ساتھ ملاکر بھائی بنایا جائے‘ اسی میں ان کی بھی بہتری ہے‘ کراچی کی بھی بہتری ہے تو سندھ کی بھی بہتری ہے‘ سندھ کی یک جہتی پاکستان کے لئے بھی ضروری ہے‘ خدانخواستہ اگر سندھ کو ٹکڑے کرنے کی کوشش کی گئی تو شاید پاکستان تو کیا سارا سائوتھ ایشیا Balqanise متاثر ہوسکتا ہے۔ یہ بات میں نے ایک بار امریکہ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں اپنے ’’پیپر‘‘ میں کہی تھی‘ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب اس کانفرنس کی صدارت کرنے والے پینل کے سربراہ جو امریکہ کے ایک بڑے دانشور ہیں‘ نے میری اس رائے سے مکمل اتفاق کیا۔ میں نے پچھلے کالم میں کراچی سے تعلق رکھنے والے دو نکات ادھورے چھوڑے تھے‘ ایک نکتے کا تعلق سمندر میں کراچی شہر سے داخل ہونے والا Efflluent‘ مذبحہ خانوں سے بہنے والا خون اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مادے سے تھا جبکہ دوسرے نکتے کا تعلق کراچی کی پانی کی ضروریات اور ان ضرورتوں کو پورے کرنے والے وسائل وغیرہ‘ مگر بدھ کے اخبارات میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں منگل کو ہونے والے ایک اجلاس کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں سندھ کے کئی مسائل مثلاً این ایف سی ایوارڈ وغیرہ اور خاص طور پر کراچی کی پانی کی ضروریات کے بارے میں کئی اہم باتوں کاذکر ہے‘ یہ خبر پڑھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میرا آج کا کالم اس رپورٹ پر ہونا چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ نہ فقط کراچی کے عوام مگر خاص طور پر کراچی کی وہ قیادت جو کراچی پر اپنی ’’خاص‘‘ رائے رکھتی ہے اور اس رائے کے ساتھ کراچی اور کراچی والوں کو ساتھ لیکر ایک خاص رخ میں بڑھنا چاہتی ہے‘ وہ اس رپورٹ کو غور سے پڑھیں اور ا س کے بعد اپنی رائے قائم کریں۔ بہرحال‘ حسب معمول میں ان ایشوز پر اپنی آرا انتہائی خلوص اور پیار کے جذبے کے ساتھ پیش کروں گا تاکہ خواہ مخواہ مختلف حلقوں میں خلیج پید اکرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ جہاں تک اس خبر کا تعلق ہے جس پر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے منگل کو ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں جو نکات اٹھائے ہیں ان کا اختصار یہ ہے: سندھ حکومت نے وفاق کی پانی پالیسی پر اندیشے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیلٹا والے علاقوں کو پانی فراہم کرکے انہیں تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ انہوں نے سی سی آئی کے لئے تیاری کرنے کے سلسلے میں منعقد کیے جانے والے اجلاس میں کہا کہ وفاقی حکومت پانی کے بارے میں قومی پالیسی بنانا چاہتی ہے اور سندھ چاہتا ہے کہ پانی کی قومی پالیسی کے تحت کراچی کے علاقوں اور اس کی معیشت کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کی تجویز کی گئی پانی کی قومی پالیسی پر سندھ کو سنگین اندیشے ہیں‘ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے ایک انتہائی اہم ایشو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جن صوبوں سے بھی زہریلا پانی گزر کر سندھ آتا ہے تو وہ یہ پانی صوبے خود صاف کرنے کے بعد سندھ کی طرف بھیجیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پنجاب اور بلوچستان سے زہریلا پانی آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے گھوٹکی ضلع کی زمین کو پنجاب سے آنے والے زہریلے پانی نے تباہ کردیا ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ سندھ کے شہر کراچی کو 1200کیوسک پانی فراہم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسلام آباد اور راولپنڈی کو پانی جن شرائط پر فراہم کرنے پر رضا مند ہوئے تھے تو انہی شرائط کے مطابق اس وقت کراچی کو 1200 کیوسک پانی فراہم کیا جائے اور 2020 ء میں کراچی کو 1800 کیوسک اور 2025ء میں 2400کیوسک پانی فراہم کیا جائے۔ انہوں نے خاص طور پر یہ بات کی کہ کراچی میں مقامی لوگوں کے مقابلے میں دوسرے صوبوں سے آنے والے لوگ آباد ہیں‘ اس وجہ سے کراچی شہر زیادہ پانی کا حقدار ہے۔ اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ جمعہ کو سی سی آئی کے اجلاس میں جانے سے پہلے انتہائی عجلت میں ہی صحیح جمعرات کو ہی سندھ اسمبلی کے ممبران جن کا کراچی سے تعلق ہے ان کا اجلاس بلائیں اور انہیں ان ساری باتوں پر اعتماد میں لیں‘ خاص طور پر سی سی آئی کے اجلاس سے لوٹنے کے بعد اس اجلاس میں جو فیصلے ہوئے ہوں اور جو کیس سندھ کے نمائندے سی سی آئی میں رکھتے ہیں اس کے بارے میں وزیر اعلیٰ سندھ کراچی میں نہ فقط ایک تفصیلی پریس کانفرنس کریں مگر میری تجویز ہے کہ نہ فقط سندھ اسمبلی مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ممبران اور ایسی سیاسی جماعتیں جن کی کراچی میں کافی اہمیت ہے‘ مثال کے طور پر جماعت اسلامی اور جے یو پی کی قیادت کو مدعو کرکے کراچی میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس میں یہ ساری باتیں تفصیل سے رکھی جائیں‘ ان باتوں کے علاوہ سندھ کے ایک شہری اور ایک صحافی کی حیثیت سےاس ایشو پر میری کچھ اور بھی تجاویز ہیں جو میں چاہوں گا کہ مختصر طور پر ہی صحیح اس کالم میں پیش کروں۔ میں ایک تجویز اس سے پہلے بھی اپنے کالموں میں دےچکا ہوں اور ایک بار پھر دہرائوں گا کہ گندے پانی کو صاف کرنے کا کام کوئی صوبہ اکیلا نہیں کرسکتا‘ سی سی آئی میں یہ مسئلہ اس طرح اٹھایا جائے کہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کی طرف سے کچھ بین الاقوامی اداروں کی مالی اور تکنیکی مدد سے ایک ملک گیر پروجیکٹ شروع کیا جائے جس کے تحت ہر صوبے سے Effluent دریا میں نہ جائے اور نہ کارخانوں کا زہریلا مادہ دریا میں جائے۔ فقط اس طرح اصل مقصد حاصل ہوسکتا ہے‘ اس کے علاوہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں دیگر صوبوں کے کافی لوگ آباد ہیں‘ ان کی تعداد کے تناسب سے ہر صوبہ اضافی پانی کراچی کو فراہم کرے مگر جناب ! یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد کراچی میں آباد ہے‘ ان کی کیوں کوئی بات نہیں کرتا‘ ان کو اپنے اپنے ملک واپس بھیجا جائے یا ان کی پانی کی ضروریات مرکزی حکومت پوری کرے دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کی قیادت کرنے کا دعویٰ کرنے والے ان حساس ایشوز پر کیوں خاموش ہیں؟

.
تازہ ترین