• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے کے مطابق نواز شریف عدالت کے سامنے اپنی بیگناہی ثابت نہیں کر سکے۔ جبکہ دو سینئر ججوں کے خیال میں وہ اپنے متضاد بیانات اور جو ثبوت انہوں نے اپنی بیگناہی کے سلسلے میں پیش کئے ہیں اُن کے ناکافی اور ناقص ہونے کی بنا پر صادق اور امین نہیں رہے اور مجرم ثابت ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے قابل نہیں رہے اور انہیں اپنے عہدے سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ البتّہ تین ججوں نے انہیں مزید دو ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ جے آئی ٹی یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے روبرو اپنی بیگناہی ثابت کرنے کے لئے متنازع فلیٹس کی ملکیّت کے بارے میں اگر چاہیں تو مزید ثبوت دے سکتے ہیں۔ گویا میاں صاحب کو پانچ میں سے کسی ایک جج نے بھی بیگناہ قرار نہیں دیا ان حالات میں میاں نواز شریف کا تقریباً63سالہ سیاسی کیریئر شدید خطرات سے دوچار ہوگیا ہے اور پاکستانی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ دو فاضل ججوں کی طرف سے میاں نواز شریف کو مجرم قرار دینے کے بعد میاں صاحب اس وقت تک وزارتِ عظمیٰ کے اہل نہیں رہے جب تک جے آئی ٹی انہیں بیگناہ قرار نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں نے میاں نواز شریف سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جو صرف اخلاقی لحاظ سے ہی نہیں قانونی لحاظ سے بھی درست ہے کیونکہ جے آئی ٹی جن اداروں کے افراد پر مشتمل ہے وہ وزیرِاعظم کے ماتحت ہیں اور غیر جانبدار انہ تفتیش کے لئے ضروری ہے کہ وہ جزوی طور پر ثابت شدہ مجرم (دو ججوں کے مطابق) اور جزوی طور پر تاحال ملزم (تین ججوں کے مطابق) کے اثر و رسوخ سے آزاد رہ کر کام کر سکے۔ صرف یہی نہیں میاں صاحب کے پیش کردہ ثبوتوں کے بارے میں تمام پانچ ججوں کے ریمارکس انتہائی منفی اور سخت ہیں۔اس سے قطع ِ نظر کہ میاں نوازشریف استعفٰی دیتے ہیں یا نہیں۔ اور اپوزیشن پارٹیاں اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں۔ یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اسی کی دہائی میں پاکستان کے بدترین ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے چھتر سائے تلے اپنا سیاسی کیرئیر شروع کرنے والے میاں نواز شریف کی سیاست اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ میاں صاحب کے سیاسی کیرئیر پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو ان کے بارے میں سیاسی مخالفین کا جو عام تاثر تھا کہ وہ اپنی ذہانت اور قابلیت سے زیادہ خوش قسمتی کی وجہ سے ترقی کرتے کرتے تیسری مرتبہ وزیرِاعظم کے عہدے تک پہنچ گئے، کچھ غلط محسوس نہیں ہوتا۔ اپنے کیرئیر کے ابتدائی بیس سال تک وہ اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر رہے جو انہیں ملک کی حقیقی سیاسی قیادت کو کچلنے کے لئے استعمال کرتی رہی۔ آئی جے آئی کی تشکیل، دھاندلی زدہ انتخابات، 90کے انتخابات میں پیپلز پارٹی مخالف سیاستدانوں میں رقم کی تقسیم اور مہران اسکینڈل جیسے جمہوریت مخالف ہتھکنڈوں کے ذریعے ان کی سیاست کو پروان چڑھایا گیا۔ جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد نوّے کی دہائی میں جب جمہوریت بحال ہوئی تو اسے مضبوط کرنے کی بجائےمحترمہ بے نظیر بھٹو کی نو زائیدہ جمہوری حکومت کے خلاف جس منفی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا اور جمہوریت دشمن طاقتوں کے آلہء کار کے طور پر جو کچھ کیا۔ وہ ابھی کل کی بات ہے پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے مرکزی حکومت کی اتھارٹی کو قدم قدم پر چیلنج کیا۔ اور صوبائی تعصّب پر مبنی ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں مالی کرپشن کی سیاست کا آغاز بھی جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہوا۔ جس نے ارکانِ اسمبلی کی خریدو فروخت کے لئے ترقیاتی فنڈز کے نام پر اُن میں بھاری رقوم تقسیم کیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی آڑ میں حکومت کا تختہ الٹنے والے اس ڈکٹیٹر نے جھوٹ اور انتخابی دھاندلی کے وہ ریکارڈ قائم کئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ضیاء کا ریفرنڈم، غیر جماعتی انتخابات اور غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلیوں کے ممبران کو اپنی خود ساختہ مسلم لیگ میں شامل کرنا اور پھر اپنے ہی نامزد وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو اپنی آمرانہ 52-Bترمیم کے ذریعے ختم کرنا اسکی موٹی موٹی مثالیں ہیں۔ اسی دور میں شریف خاندان کی ملیں اور فیکٹریاں خود رو پودوں کی طرح بڑھنے لگیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں میاں صاحب دس سال کے لئے معافی مانگ کر سعودی عرب میں جلا وطن ہوگئے لیکن پھر قسمت نے ان کی یاوری کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی وجہ سے نہ صرف وہ دوبارہ پاکستانی سیاست میں اِن ہوگئے بلکہ ان کی شہادت کے بعد ملک کے تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بھی بن گئے۔ یوں لگتا تھا کہ اب ان کی قسمت میں ہمیشہ کے لئے وزیرِاعظم ہونا لکھ دیا گیا ہے کہ اچانک مکافاتِ عمل کا آغاز ہوگیا۔ مخالفین کہتے ہیں کہ عمران خان کی شکل میں انہیں وہ اپوزیشن لیڈر ملا جس نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وہ کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تو ایک ڈکٹیٹر کے زمانے میں عدالتی قتل ہوا تھا۔ لیکن اس میں بھی سات میں سے تین ججوں نے مسٹر بھٹو کو بیگناہ قرار دیا تھا۔ مگر مکافاتِ عمل دیکھئے کہ میاں صاحب کے اپنے دور میں ان کے خلاف مالی کرپشن کا مقدمہ چلا جس میں ایک بھی جج نے ان کے حق میں فیصلہ نہیں دیا۔
.
تازہ ترین