• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک لیک کے بعد ایک اور لیک۔ پہلے ڈان لیکس کا معاملہ اٹھایا گیا، ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی۔ اُس نے پتا نہیں کیا کیا۔ پھر اُس کی ایک رپورٹ آئی۔ اس میں کیا تھا، کسی کو پتا نہیں۔ ذرائع کے حوالے سے دن بھر مختلف خبریں آتی رہیں۔ کیا حقیقت تھی اور کیا ہے، وہ تو رپورٹ وزیرِاعظم کو پیش کرنے کے بعد بھی سامنے نہیں آئی۔ بلکہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اُس کے بعد ذرائع بھی خاموش ہو گئے، کچھ بھی سامنے نہیں لائے۔
اس سے پہلے اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہوا۔ وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو فارغ کر دیا گیا۔ الزام یہ کہ انہوں نے خبر رکوائی کیوں نہیں۔ یاد نہیں کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ پریس ایڈوائس کے باوجود اگر کوئی خبر شائع ہو گئی ہو تو ایڈوائس جاری کرنے والے افسر کو برطرف کر دیا گیا ہو۔ یہ تو اُس زمانے میں بھی نہیں ہوا جب ایوب خان کا پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس اپنے پورے جوبن پر تھا۔ جو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کا کیا جاہ و جلال تھا۔ ایک معمولی سا ا فسر بڑی سے بڑی خبر رکوا سکتا تھا۔ یہ آئے دن کا قصہ تھا، ماتم جس کا ہم اب تک کرتے ہیں، اور مذمّت بھی۔ خاصی تاریخ اس کی، جسے پریس ایڈوائس کہتے تھے، محترم ضمیر نیازی نے مرتب کردی ہے۔ (کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ Press in Chainsکی بعد کی اشاعت میں سے آکسفرڈ پریس نے بھٹو اور ضیاءالحق کے بھیانک ادوار اس کتاب میں سے نکال دئیے ہیں۔ تاریخ کو یوں بھی مسخ کیا جاتا ہے) ایوب کے دور میں، اور بہت بعد تک، انفارمیشن افسر کا ایک فون کافی ہوتا تھا۔ اخبارات خوفزدہ رہتے تھے، ان کے اشتہارات، ان کا نیوز پرنٹ کوٹہ، حتیٰ کہ ان کا ڈیکلیئریشن تک حکومت کے قبضہ میں تھا۔ جو جرأت کرتے تھے، نقصان اٹھاتے تھے۔ کم ہی تھے جو جابر سلطانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرتے تھے۔ جو کرتے تھے ان میں سے کچھ سلطان سے پو چھ لیا کرتے تھے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ پرویز رشید کی یہ ذمہ داری کب تھی، کسی بھی وزیرِ اطلاعات کی یہ ذمہ داری کب ہوتی ہے کہ وہ کوئی خبر کسی بھی اخبار میں چھپنے سے رکوا سکے؟ اس کا کام حکومت کا موقف اور نقطۂ نظر متعلقہ اخبار کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔ وہ انہوں نے کیا۔ حکومت کا موقف بیان کرنے کے لئے پریس کانفرنس، یا اب ٹی وی پر آکر ’کرنٹ افئیر ملاکھڑے‘ میں شریک ہو جائے۔ پرویز رشید یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے تھے۔ نواز شریف سے ان کی وفاداری کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے۔ اور وہ کبھی بھی کسی الزام کی زد میں نہیں آئے۔
جب انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو ایسا لگا کہ ڈان کی وہ متنازع خبر، جس پر اتنا ہنگامہ ہے کہ شاید ہی کسی خبر پر کبھی ہوا ہو، انہوں نے ’لیک‘کی ہے۔ یہ دلچسپ بات الگ رہی کہ اس خبر کو سرکاری اہلکار مسلسل جھوٹا قرار دیتے رہے تھے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگر وہ جھوٹی خبر ہے تو ’لیک‘ کیا ہوا، یا کیا گیا۔ مگر پرویز رشید نے تو، رپورٹر کے رابطہ کرنے پر، اسے اپنے دفتر بلا کر، خبر کی تردید کی کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ تو ان کا ’جرم‘ صرف یہ ٹھہرا کہ جب خبر ان کے علم میں آگئی تھی تو انہوں نے اسے رکوایا کیوں نہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو اس طرح سوچتے ہیں؟ ڈان تو ایک بڑا اخبار ہے، اس کے کچھ اپنے اصول ہیں، ایک پالیسی ہے، وہاں خبر رکوانا ایک ناممکن کام ہے۔ اگر ایڈیٹر نے خبر کی اشاعت کا فیصلہ کر لیا ہے، اور فیصلہ وہی کرتا ہے، تو پھر انتظامیہ بھی خبر شائع ہونے سے نہیں روک سکتی۔ ڈان میں کام کرنے والے بعض سابق لوگوں کا یہ دعویٰ کہ خبر کی اشاعت میں انتظامیہ کا کوئی کردار ہوتا ہے، یا تو ان کی لا علمی ہے، یا بدنیتی۔
بتیس سال اس ادارے میں کام کرنے کے دوران میں، کئی بار ایسا ہوا۔ ایک بار میں نے ایک تحقیقاتی مضمون لکھا۔ انتظامیہ باوجوہ اس کے مندرجات سے اتفاق نہیں کررہی تھی۔ حالات ہی کچھ ایسے تھے۔ ایم کیو ایم کے خلاف اس وقت بھی ایک فوجی آپریشن جاری تھا، ہیرالڈ کے ایڈیٹر کا فیصلہ تھا مضمون شائع ہوگا۔ کافی بحث مباحثہ ضرور ہوا، کئی گھنٹے، مگر بالآخر، ایڈیٹر طلعت اسلم کی بات مانی گئی اور وہ مضمون شائع ہوا۔ ریکارڈ پر ہے۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں پر تشدد کرنے والے کچھ افسران کا تبادلہ بھی ہوا۔ ایسا ایک بار نہیں ہوا۔ ایک اور حساس مضمون ہیرالڈ میں شائع ہوا۔ انتظامیہ کو پسند نہیں آیا۔ مگر اس کی اشاعت نہیں روکی گئی۔ اور ایک طویل فہرست ہے جسے دہرانے کی کوئی ضرورت ہے نہ فائدہ۔
تو بیچارے پرویز رشید ڈان میں خبر کیسے رکوا لیتے۔ بہت سے بہت وہ درخواست کر سکتے تھے، انہوں نے کوشش کی بھی ہوگی، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا، ہونا بھی نہیں تھا۔ پرویز رشید سے بہتر یہ بات کون جانتا ہے۔ اس طرح خبریں رکتی نہیں ہیں، دنیا میں کہیں بھی نہیں۔ جن ملکوں میں اخبارات زیادہ قوم پرست ہیں، جیسے بھارت یا امریکہ، وہاں معاملہ الگ ہے۔ وہاں کے اخبار نویس خود بعض معاملات میں احتیاط کرتے ہیں، اور بعض مرتبہ ضرورت سے زیادہ۔ ایک طرف اگر وہ وزیراعظم اندرا گاندھی کے معاشقوں سے چشم پوشی کرتے ہیں، تو دوسری طرف راجیو گاندھی کی اس احمقانہ سادگی کو بھی چھپا لیتے ہیں کہ ُاسے سبز مرچ اور سرخ مرچ میں فرق پتہ نہیں۔ سبزی منڈی کے ایک دورے میں، دو روپے کلو سبز مرچ بیچنے والی ایک خاتون کو اُس نے مشورہ دیا کہ وہ سرخ مرچ کیوں نہیں اگاتی، کیونکہ ذرا آگے ایک عورت سرخ مرچ بیس روپے کلو بیچ رہی تھی۔ یہ خبر بھی شائع نہیں ہوئی۔
اور اب تو یہ بات بہت واضح ہوگئی ہے کہ خبر ’لیک‘ نہیں ہوئی۔ خبر تھی ہی نہیں۔ پہلی بات تویہ کہ پھر کیا ہوا جس پر، یہ ہنگامہ ہے برپا۔ پھر خبر ’پلانٹ‘ کی گئی۔ ہم نے اس کا ایک آزاد ترجمہ کر رکھا تھا، ’’پوداکاری‘‘۔ ایسی خبر کہیں سے آجاتی تو خوب مزے لئے جاتے۔ شیری رحمان ایڈیٹر تھیں، فقرے بازی ان کی عادتِ ثانیہ تھی۔ سب ہی کی عادت تھی۔ قابلِ اشاعت سے لے کر ناقابلِ اشاعت جملہ بازی ہوتی۔ خبر ردی کی ٹوکری کی نذر۔
اب جب یہ طے ہو ہی گیا ہے کہ ’لیک‘ نہیں ہوئی تو پھر کس بات کی تحقیقات ہوئی؟ وزیرِاعظم کے ترجمان، مصدق ملک نے ایک ٹی وی پر و گرام میں عجیب بات کی تھی، انفارمیشن کا بریچ ہوا ہے۔ کئی اجلاسوں میں ہونے والی باتوں کو اِدھر اُدھر سے جمع کرکے ایک خبر میں سمو دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم ہاؤس میں بہت سے اہم اجلاس ہوتے ہیں، وہاں بہت حساس معاملات پر بات ہوتی ہے، صرف وہ اطلاعات شائع کی جانی چاہئیں جو سرکاری پریس ریلیز میں جاری کی جائیں۔ ان کے حساب سے ان کی بات ٹھیک ہے۔ مگر کیا اس طرح صحافت ہوگی؟ کیا صحافی صرف پریس ریلیز کی ہی خبر بنائے گا؟ اس کے ذرائع زیادہ چٹ پٹی خبر دیں تو وہ کیا کرے؟ مصدق ملک نے پتہ نہیں کبھی صحافت کی یا نہیں۔ مگر ان کی اس بات میں کوئی زیادہ وزن نہیں ہے۔ سب یہی کہتے رہے کہ سب کو پتہ ہے کہ خبر کہاں سے آئی۔ یہ جملہ سب استعمال کرتے ہیں، تحریر میں بھی اور پروگراموں میں بھی،بتاتا کوئی نہیں۔ بتایا تو شاید کمیٹی نے بھی نہیں۔ ایک اندازہ ہے، اور وہ بھی ’ذرائع‘ کی اطلاعات کی بنیاد پر، کہ کچھ لوگوں کو فارغ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ثابت شاید ان کے خلاف بھی کچھ نہیں ہوا۔ اب بیچارے طارق فاطمی اور پرنسپل انفارمیشن افسر رائو تحسین کو نشانہ بنایا جائے گا تو یہ انصاف کا خون ہوگا۔ اگر ان پر لیک کا الزام ثابت نہیں ہوا تو سزا کس بنیاد پر دی جائے گی؟
صحافیوں کے لئے اور ذرائع ابلاغ کے لئے ایک اور مسئلہ ہے جس پر بہت زیادہ سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا اب یہی ہوگا کہ ہر اُس خبر کے لئے ایک جے آئی ٹی بنائی جائے گی جو حکومت کو یا دوسرے با اختیار اداروں کو پسند نہ آئے؟ ان کی ناراضی کا سبب بنے؟ اگر ایسا ہے، اور تحقیقاتی کمیٹی سے لگتا ہے کہ ایسا ہی ہونے جارہاہے، تو اس ملک کی صحافت پر فاتحہ پڑھ لیجئے۔ اخبارات میں صرف سرکاری، اور کچھ غیر سرکاری پریس ریلیزچھپا کریں گی،یوں پاکستان میں صحافت کا ایک نیا باب لکھا جائے گا، افسوسناک باب۔
دریں اثنا، بے چارے پرویز رشید پر سے وہ الزام تو واپس لے لیں جو دراصل کوئی الزام ہی نہیں ہے۔ الزام اس وقت ہوتا جب وہ خبر رکوانے کے لئے اپنے کچھ دیدہ اور نادیدہ ا ختیارات استعمال کرتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اچھا کیا۔ ان سے معذرت کی جائے، اور اگر ان کے عہدے پر بحال نہیں کیا جا سکتا، تو کوئی حرج نہیں۔ ان کی عزّت تو بحال کی جائے۔

.
تازہ ترین